صحافی نے مورچے میں بیٹھے فوجی سے کہا: “تم اس نوکری سے کتنا کما لیتے ہو؟”
فوجی نے حیرت سےصحافی کو دیکھا اور بولا: “صاحب کیا میں یہاں ہتھیار تھامے کمائی کرنے بیٹھا ھوں؟ سنو! میرا دادا فوجی تھا اور دشمن سے لڑتا ھوا شہید ہوگیا گیا۔ اس کے تابوت پر سے جھنڈا اتار کر میرے والد کے ھاتھ میں دے دیا گیا! میرا باپ بھی فوجی بنا اور ایک دن اس کی لاش بھی جھنڈے میں لپٹی گھر آگئی اور وہ جھنڈا میرے حوالے کر دیا گیا، جس کو سینے سے لگائے میں اس مورچے پہ بیٹھا ھوں، ایک دن کوئی گولی اس مورچے کو میرے خون سے سرخ کرے گی اور پھر میرا بیٹا یہ جھنڈا لے کر یہاں
آ کر میری جگہ سنبھال لے گا۔
صاحب! ھم وطن کے لیے سر کٹانے آتے ھیں کاروبار کرنے نہیں۔ کاروبار کرنے والے تو ووٹ کی بھیک مانگا کرتے ھیں۔ ان سے پہلے یہ کام ان کے باپ دادا کرتے تھے اور ان کے بعد ان کی اولاد بھی یہی کرے گی۔ ھم نے کام بانٹ رکھا ھے۔ وہ تخت پر بیٹھتے ہیں اور ھم مورچے میں۔ یہ نسلوں کے سودے ھیں۔۔۔! صاحب نسلوں کے….! “
سپاہی دم لینے کو رکا اور پھر کچھ سوچ کر تلخی سے مسکراتے ھوئے کہنے لگا: “صاحب! نیچے ھو کر بیٹھو کہیں میرے نام کی کوئی گولی تمہیں اپنا شکار نہ سمجھ لے۔ ابھی تو تم نے جا کر یہ بھی سوچنا ھے کہ ہم کتنا کماتے ہیں؟
صاحب! ھماری تین نسلیں مورچوں میں شہید ہو کر وطن پر قربان ہو چکی ھیں اور تم مہنگی گاڑیوں والے آج تک یہی نہیں جان سکے کہ ہم کتنا کما لیتے ہیں۔”