ابوعبیدہؓ قریش میں شامل تھے‘ 28 سال عمر تھی‘ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسلام قبول کیا اور وہ بھی اگلے ہی دن مسلمان ہو گئے اور پھر پوری زندگی رسول اللہ ﷺ کے لیے وقف کر دی‘ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا اور وہ حبشہ چلے گئے‘ واپس بلایا‘ واپس آ گئے‘ مدینہ کی طرف رخ موڑا‘ وہ مدینہ منورہ پہنچ گئے‘ غزوہ بدر کا وقت آیا‘ والد کفار کی طرف سے سامنے آیا یہ قربانی ایسی قربانی تھی کہ قرآن مجید کی آیت اتری اور یہ کارنامہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔
نبی اکرمؐ کے ساتھ ہر غزوہ میں شرکت کی‘ آپؐ کے حکم پر ہر جنگ میں بھی شریک ہوئے اور کامیاب بھی لوٹے‘ وہ رسول اللہﷺ کے ان دس ساتھیوں (عشرہ مبشرہ) میں شامل تھے جنہیں زندگی میں جنت کی بشارت دی گئی تھی‘ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں سپہ سالار تھے‘
حضرت عمر فاروقؓ ان کی سادگی اور جرات کے مداح تھے‘ آپؓ خلیفہ بنے تو بلایا اور اسلامی لشکر کا سپریم کمانڈر بنا دیا‘ وہ گھوڑے پر سوار ہوئے اور مسلمانوں نے ان کی کمان میں قیصر اور کسریٰ کی ساری سلطنت روند کر رکھ دی‘ بیت المقدس تک بھی فتح کر لیا‘ وہ آخر میں شام اور موجودہ اردن کے علاقے فتح کر رہے تھے‘اسلامی لشکر کا بڑا حصہ ان کی کمان میں تھا لیکن پھر شام اور عراق میں قحط پڑ گیا‘ فوج کشی بند کی اور لوگوں کو قحط اور خشک سالی سے نکالنے میں مصروف ہو گئے‘ قحط ابھی رکا نہیں تھا کہ شام میں طاعون بھی پھیل گیا‘ لشکر حمص میں تھا‘ آپؓ نے خود کو چھاؤنی تک محدود کر لیا‘ حضرت عمر فاروقؓ شام کے دورے پر آئے‘ سرحد تک پہنچے تو طاعون کی اطلاع آ گئی‘ آپؓ نے واپسی کا اعلان کر دیا‘ یہ خبر حمص پہنچی تو گھوڑے پر بیٹھے اور سیدھے خلیفہ کے سامنے پیش ہو گئے‘ مسکرا کر خلیفہ کو دیکھا اور کہا ”عمرؓ تم اللہ کی رضا سے بھاگ رہے ہو“ حضرت عمرؓ نے ان کی طرف دیکھا‘ تھوڑی دیر سوچا اور پھر فرمایا ”یہ بات اگر تمہاری جگہ کوئی اور کرتا تو مجھے قطعاً افسوس نہ ہوتا“۔
وہ رکے اور پھر فرمایا ”ہاں میں اللہ کی رضا سے بھاگ رہا ہوں لیکن اللہ کی رضا کی طرف“ حضرت عمر فاروقؓ نے یہ بھی فرمایا ”رسول اللہ ﷺ نے وبا کے علاقے میں داخل ہونے سے منع فرمایا تھا“ حضرت عمرؓ نے انہیں مدینہ چلنے کا مشورہ دیا لیکن وہ مصیبت کی گھڑی میں اپنی فوج کو اکیلا چھوڑنے پر تیار نہ ہوئے اور حمص واپس لوٹ گئے‘ طاعون حمص پہنچ گیا‘ اسلامی فوج میں داخل ہوا اور سپاہی تیزی سے انتقال فرمانے لگے‘ حضرت عمر فاروقؓ انہیں ہر صورت بچانا چاہتے تھے۔
وہ انہیں اپنے بعد خلیفہ دیکھناچاہتے تھے‘ ان کا خیال تھا پورے عالم اسلام میں ان جیسا تجربہ کار اور سمجھ دار شخص نہیں لہٰذاخلیفہ نے انہیں خط لکھ دیا‘ وہ خط‘ خط نہیں تھا‘ حکم تھا اور اس حکم میں خلیفہ نے فرمایا تھا ”یہ خط اگر تم رات کو پاؤ تو صبح سے پہلے روانہ ہو جاؤ اور اگر تمہیں یہ خط دن کو ملے تو شام سے پہلے مدینہ کی طرف روانہ ہو جاؤ‘ مجھے تمہاری فوری اور اشد ضرورت ہے“ وہ خلیفہ کی نیت سے واقف تھے‘ وہ جانتے تھے خلیفہ انہیں بچانا چاہتے ہیں لہٰذا خلیفہ کو جواب لکھ دیا”میں جانتا ہوں آپؓ مجھے کیوں بلا رہے ہیں لیکن میں ان حالات میں اپنا لشکر نہیں چھوڑ سکتا“۔
ساتھ ہی ایک حدیث بھی لکھ بھجوائی‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ”اگر کسی علاقے میں وبا پھوٹ پڑے تو وہاں سے ہرگز نہ نکلو“ حضرت عمرؓ نے خط پڑھا تو آنسو آ گئے‘ دیکھنے والوں نے پوچھا ”کیا ابوعبیدہؓ انتقال فرما گئے ہیں“ جواب دیا نہیں ابھی نہیں لیکن جلد فرما جائیں گے“۔جی ہاں! آپ کا نام حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓتھا‘ عشرہ مبشرہ تھے‘ عالم اسلام کا دماغ بھی تھے اور دل بھی‘ آپؓ واحد صحابی تھے جنہیں حضرت عمرؓ نے خط لکھ کر موت سے بھاگنے کی دعوت دی تھی لیکن آپؓ نے چین آف کمانڈ پر یقین کے باوجود خلیفہ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا اور یہ ان کی زندگی کا پہلا اور آخری انکار تھا۔
انکار سن کر حضرت عمرؓ رو پڑے اور جوابی خط لکھا”اللہ کے بندے پھر مہربانی کرو اور کسی اونچی جگہ پر منتقل ہو جاؤ“ یہ حکم مان لیا اور حمص سے نکل کر جابیہ چلے گئے‘ یہ علاقہ وادی اردن اور گولڈن ہائیٹس کے درمیان واقع ہے‘ صحت بخش مقام ہے لیکن موت ان کے تعاقب میں تھی‘ 639ء میں طاعون کی لپیٹ میں آئے‘ چنددن بیمار رہے اور بیماری کے عالم میں انتقال فرما گئے‘ آپؓ کے بعد ابن جبل نے فوج کی کمان سنبھال لی اور چند دن بعد وہ بھی طاعون کا شکار ہو گئے اور اس کے بعد لائین لگ گئی۔
اسلامی لشکر کے آدھے جوان وبا کا شکار ہو گئے‘ ان میں بے شمار جید صحابہؓ بھی شامل تھے‘ حضرت ابوعبیدہ ؓ کو جابیہ میں دفن کردیا گیا‘ امیر تیمور نے جب اردن فتح کیاتو وہ جابیہ پہنچا‘ آپؓ کا مزار دیکھا‘ حالت اچھی نہیں تھی‘ وہ آپؓ کا تابوت اٹھا کر ازبکستان لے گیا‘ قرشی شہر میں شان دار مزار بنایا اور آپؓ کو وہاں دفن کر دیا‘ مجھے اس مزار پر حاضری کی سعادت نصیب ہو چکی ہے‘ میں اردن میں آپؓ کے اصل مزار پر بھی حاضر ہونا چاہتا تھا لیکن شاید نصیب میں نہیں تھا‘ میں نکلا لیکن راستہ لمبا تھا اور اگلے دن فلائیٹ تھی چناں چہ دعا کر کے واپس آگیا لیکن ان شاء اللہ حاضری ضرور دوں گا۔
ہم گناہ گار مسلمان ہیں اور ہم جیسے گناہ گاروں کا ایمان ہے نبی اکرمؐ کے اصحابؓ جیسے لوگ دوبارہ اس زمین پر نہیں آسکتے‘ ہم عشرہ مبشرہ کے ایمان پر شک کا سوچ بھی نہیں سکتے لہٰذا میں ڈرتے ڈرتے آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں ”کیا اللہ تعالیٰ (نعوذباللہ) حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ سے ناراض ہو سکتا ہے؟ اور کیا (نعوذباللہ) حضرت عمرفاروق ؓ کو بھی اپنے ایمان اور اللہ تعالیٰ کی مشیت پر شک ہو سکتا ہے؟ جی نہیں‘ ہرگز ہرگز اور ہرگز نہیں چناں چہ پھر سوال پیدا ہوتا ہے طاعون کا سن کر حضرت عمرفاروقؓ شام کی سرحد سے کیوں لوٹ گئے تھے؟۔
کیا آپؓ یہ نہیں جانتے تھے زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ جب تک نہیں چاہے گا موت اس وقت تک ان کی طرف دیکھ بھی نہیں سکے گی‘ دوسرا کیا عشرہ مبشرہ میں شامل حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ بھی یہ نہیں جانتے تھے حمص ہو‘ جابیہ ہو یا پھر مدینہ ہو میری سانسوں کی مہلت جب ختم ہو جائے گی تو ختم ہو جائے گی‘ مجھے کوئی نہیں بچا سکے گا اور اللہ نے اگر مجھے محفوظ رکھنا ہے تو پھر میں کہیں بھی چلا جاؤں دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکے گی اور کیا وہ یہ نہیں جانتے تھے زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور میں اگر طاعون کا وائرس لے کر مدینہ بھی چلا جاؤں تو بھی میں اللہ کی مرضی کے بغیر کسی کو یہ مرض نہیں لگا سکوں گا اور کیا یہ دونوں عشرہ مبشرہ (حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ) یہ نہیں جانتے تھے مدینہ دنیا کا بابرکت ترین شہر ہے۔
اس کی خاک میں سرورکائناتﷺ آرام فرما رہے ہیں اور اس کی فضا میں فرشتے درود وسلام پڑھتے ہیں چناں چہ طاعون کا باپ بھی آ جائے تو بھی وہ رسول اللہ ﷺ کے شہر کے کسی باسی کوچھو نہیں سکے گا‘ یہ دونوں اگر یہ حقیقت جانتے تھے تو پھر حضرت عمر فاروقؓ شام کی سرحد سے کیوں لوٹ گئے اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ نے اردن سے باہر نکلنے سے کیوں انکار کر دیا؟ ایک کی واپسی اور دوسرے کا انکار کیا یہ ثابت نہیں کرتا ایمان ایک چیز ہے اور وبا دوسری‘ موت بے شک اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن زندگی کی حفاظت انسان کا سب سے بڑا فرض ہے۔
اللہ کو اللہ کا کام کرنے دیں اور اپنا فرض‘ اپنا فرض سمجھ کر نبھائیں چناں چہ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ دونوں کی سنت پر عمل کریں‘ وبا کے علاقے میں داخل نہ ہوں اور اگر وبا کے علاقے میں ہیں تو اس سے باہر نہ نکلیں حتیٰ کہ مدینہ بھی نہ جائیں کیوں کہ ہم کچھ بھی ہو جائیں ہم حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ سے بڑے عاشق رسول ؐ نہیں ہو سکتے اور آپؓ نے بیماری کے خدشے سے اس رسولؐ کے شہر جانے سے بھی انکار کر دیا تھا جس کی خوشی کے لیے آپؓ نے اپنے سگے والد کا سر بھی اتار دیا تھا۔
میں دس دن سے اپنے مسلمان بھائیوں کے منہ سے سن رہا ہوں کرونا کی وبا اللہ کا عذاب ہے اور ہم جب تک خانہ کعبہ‘ مسجد نبوی اور مساجد میں جا کر توبہ نہیں کریں گے اللہ اس وقت تک ہم سے راضی نہیں ہو گا‘ میں جب بھی یہ سنتا ہوں تو مجھے قرشی کی آدھے چاند کی وہ رات یاد آ جاتی ہے جب میں نے حضرت ابوعبیدہؓ کے مزار کی چوکھٹ پر بیٹھ کراپنی اور اپنے خاندان کی مغفرت کی دعا کی تھی‘ مجھے وہ رات‘ آدھا چاند اور اپنے آنسو یاد آتے ہیں اور پھر خیال آتا ہے وبائیں اگر عذاب ہوتیں تو طاعون کبھی حضرت ابوعبیدہؓ جیسے عاشق رسولؐ کے جوتوں کی مٹی تک نہ چھو پاتا۔
وبائیں عذاب نہیں ہوتیں‘ یہ گناہوں کا نتیجہ بھی نہیں ہوتیں‘ یہ صرف امتحان ہوتی ہیں اور امتحان صرف صبر‘ برداشت اور حوصلے سے دیے جاتے ہیں چناں چہ ہمیں چین کی طرح حوصلہ‘ اٹلی اور فرانس کی طرح برداشت اور امریکا اور برطانیہ کی طرح صبر کرناچاہیے‘ یہ امتحان بھی بالآخر گزر جائے گا اور زندگی کا قافلہ بہرحال دوبارہ رواں ہو جائے گا لہٰذا بس حوصلہ کریں‘ برداشت کریں اور صبر کریں۔