حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے ۔ اور داؤد علیہ السلام کے بیٹے تھے. اللہ تعالیٰ حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق سورۃ الانبیاء میں فرماتا ہے۔۔!!
وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيْحَ عَاصِفَةً تَجْرِىْ بِاَمْرِهٓ ٖ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِىْ بَارَكْنَا فِيْـهَا ۚ وَكُنَّا بِكُلِّ شَىْءٍ عَالِمِيْنَ oوَمِنَ الشَّيَاطِيْنِ مَنْ يَّغُوْصُوْنَ لَـهٝ وَيَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِكَ ۖ وَكُنَّا لَـهُـمْ حَافِظِيْنَo
اور زور سے چلنے والی ہوا سلیمان کے تابع کی جو اس کے حکم سے اس زمین کی طرف چلتی جہاں ہم نے برکت دی ہے، اور ہم ہر چیز کو جاننے والے ہیں۔ اور کچھ ایسے جن تھے جو دریا میں اس کے واسطے غوطہ لگاتے تھے اور اس کے سوا اور کام بھی کرتے تھے، اور ہم ان کی حفاظت کرنے والے تھے۔۔!!
۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی بہت سے معجزے عطا کر رکھے تھے. مثال کے طور پر آپ جانوروں کی بولیاں سمجھ لیتے تھے۔۔!! ہوا پر آپ کا قابو تھا۔۔!! آپ کا تخت ہوا میں اڑا کرتا تھا۔۔!! یعنی صبح اور شام مختلف سمتوں کو ایک ایک ماہ کا فاصلہ طے کر لیا کرتے تھے۔۔!! حضرت سلیمان علیہ السلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ آپ کی حکومت صرف انسانوں پر ہی نہ تھی، بلکہ تمام مخلوقات آپ کے تابع تھیں ۔۔!!
حضرت سلیمان علیہ السلام کو جب بادشاہت عطا کی گئی تو وہ رب کے حضور یہ دعا مانگتے ہوئے اپنی خواہش کا اظہار کر رہے تھے۔”
“اے اللہ مجھے آرزو ہے کہ ایک دن تیری ساری مخلوقات جتنے بھی ذی روح ہیں سب کی ضیافت کروں ۔۔۔”
ندا آئی کہ
“اے سلیمان ۔!! میں سب کی روزی پہنچاتا ہوں ۔میری موجودات مخلوقات میں بے انتہا ہے اس لئے سب کو تم نہیں کھلا سکتے”.
سلیمان علیہ السلام نے عرض کیا
اے میرے رب ! تو نے مجھے بہت نعمت دی ہیں .تیری عنایت سے ہی سب کچھ ہے. اگر تیرا حکم ہو تو میں سب کا طعام تیار کروں۔۔!!
“اللہ رب العزت کا حکم ہوا کہ دریا کے کنارے ایک عالی شان مکان بنواؤ اور اسے نہایت کشادہ رکھو تاکہ جس مخلوق کو دعوت دو وہ اس مکان میں با آسانی آ سکے ۔”
حکم خداوندی کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس عمارت کی تیاری شروع کروا دی جسکو مکمل ہونے میں تقرییاً ایک سال اور آٹھ مہینے لگ گئے. میدان جیسے کشادہ اس مکان میں بہ افراط کھانے پینے کا سامان و اسباب مہیا کیا گیا۔۔!! کم و بیش بائیس ہزار گائیں ذبح کی گئیں اور بہت کثیر تعداد میں دیگیں پکائی گئیں ۔۔۔ مشروبات کے تالاب تھے جن کی تیاری جنات سے کروائی گئی اور ایک پر تکلف قسم کی دعوت کا اہتمام کیا گیا ۔۔!!
جب ضیافت کی ساری تیاریاں مکمل ہو گئیں تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے سارے جہاں کی مخلوقات میں منادی کرا کے کھانے کے دعوت دے دی ۔ ساری مخلوقات انسان ۔ جن ۔چرند ۔پرند ۔درندے . ہر طرح کے کیڑے مکوڑے . خشکی ۔ تری اور ہوا میں اڑنے والے اور ریگنے والی بھی تمام مخلوق کھانے کی دعوت پہ آ پہنچیں اور اس مکان میں جمع ہو گئیں ۔ اب سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالٰی کی عظمت اور قدرت کو دیکھنے کیلئے تمام جمع شدہ مخلوقات کا مشاہدہ کرنا چاہا ۔
چنانچہ ہوا کو حکم دیا کہ تختِ سلیمان کو اٹھا کر دریا کے اوپر ہوا میں معلق رکھے تا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ہر متنفس کو اپنی نظر سے دیکھیں اور اللہ کی قدرتِ کاملہ کا مشاہدہ کر سکیں ۔
سبحان اللہ !
عین اس وقت جب تخت ہوا میں معلق تھا ایک مچھلی نے دریا میں سے سر نکالا اور سلیمان علیہ السلام سے بولی ;
“اے اللہ کے نبیّ ! اللہ عزوجل نے مجھے آپکی طرف دعوت پہ بھیجا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ نے آج تمام مخلوقات کے لئے کھانا تیار کیا ہے ۔میں اس وقت بہت بھوکی ہوں لہذٰا آپ مجھے پہلے کھانا دے دیجئے “.
سلیمان علیہ السلام نے فرمایا
“تم ذرا صبر کرو اور باقی سب کو بھی آ لینے دو۔پھر ان کے ساتھ جتنا کھانا چاہو کھا لینا ۔”
وہ مچھلی بولی !
“اے اللہ کے نبیّ میں خشکی پہ اتنی دیر نہیں ٹھہر سکوں گی کہ سب کا انتظار کروں۔۔۔۔”
یہ سن کر سلیمان علیہ السلام نے اجازت دیتے ہوئے کہا !
“اگر تمہارے لئے ٹھہرنا مشکل ہے تو پھر تم کھانا کھا لو اور جتنا تمہارا جی چاہے کھا لو۔”
یہ سنتے ہی وہ مچھلی دریا سے نکل کر اس میدان نما مکان میں آئی اور جتنا کچھ کھانا وہاں پڑا تھا سارے کا سارا ایک ہی لقمے میں کھا گئی ۔۔!! پھر سلیمان علیہ السلام کی طرف مڑی اور ان سے مزید کھانا مانگنے لگی ۔یہ دیکھ کر سلیمان علیہ السلام متعجب ہوئے اور بولے;
“اے مچھلی ، میں نے تمام مخلوقات کے لئے یہ کھانا تیار کیا تھا جو تم نے ایک ہی نوالے میں کھا لیا ۔۔ کیا اس سے بھی تیرا پیٹ نہیں بھرا جو تو اور کھانا مانگ رہی ہے۔؟؟
مچھلی بولی :
“اے اللہ کے نبیّ! اللہ تعالٰی مجھے ہر روز تین لقمے رزق دیتا ہے ۔اور جو کھانا اپنے تیار کیا تھا وہ تو سب کا سب صرف ایک ہی لقمہ ہوا ،اب مجھے دو لقمے مزید کھانا درکار ہے تب کہیں میرا پیٹ بھرے گا۔۔!!
میں
آج آپ کی مہمانی میں بھوکی رہی ہوں اور اگر آپ اسی طرح باقی مہمانوں (مخلوقات) کو بھی کھانا نہیں دے سکے تو آپ نے ناحق انہیں کھانے پہ بلوایا .”
سلیمان علیہ السلام مچھلی کی یہ باتیں سن کر حیرت زدہ رہ گئے , چکرائے اور ان پر غشی طاری ہو گئی۔ پھر جب ہوش میں آئے تو ندامت سے سجدے میں گر پڑے اور روتے ہوئے کہنے لگے !!
اے اللہ میں نے بہت ہی قصور کیا اور تیری درگاہ میں نادانی کی ۔ میں نادان و مسکین ہوں اور اس بات سے ہمیشہ کے لئے توبہ کرتا ہوں ۔۔۔ بیشک مجھے اور سارے جہان کو رزق دینے والاصرف تو ہی ہے ۔
إنّ اللهَ هو الرزّاقُ ذو القّوةِ المتينo
بے شک اللہ ہی بڑا روزی دینے والا زبردست طاقت والا ہے۔
وارْزُقنا وأنت خَيرُ الرّازقينo
اور تو ہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
وكَأًيّن مِنّ دابّةٍ لاَّ تَحْمِلُ رِزْقَها الله يرزُقُها وإيّاكم0
اور بہت سے جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے، اللہ ہی انہیں اور تمہیں رزق دیتا ہے، اور وہ سننے والا جاننے والا ہے۔
يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّـٰهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْـرُ اللّـٰهِ يَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ ۚ لَآ اِلٰـهَ اِلَّا هُوَ ۖ فَاَنّـٰى تُؤْفَكُـوْنَ.
اے لوگو اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو تم پر ہے ۔ بھلا اللہ کے سوا کوئی اور بھی خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے روزی دیتا ہو، اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں، پھر کہاں الٹے جا رہے ہو۔۔۔!!!