ایک آسٹریلوی سیاح اپنے سفرنامے میں پاکستان کے بارے میں لکھتا ہے کہ جب میں بلوچستان کا سفر ختم کر کے کراچی کے علاقے شیرشاہ پہنچا تو ریل۔گاڑی کا پھاٹک بند تھا۔
اور اسی دوران ایک شخص سائیکل پر رُکا لیکن چند سیکنڈوں میں ہی اپنا سائیکل اپنے کندھوں پر اٹھا کر پھاٹک سے چھلانگیں لگا کر اسے کراس کر لیا اس نے اس ٹرین کی بھی پرواہ نہیں کی جو تھوڑی سی فاصلہ پر شور مچاتی ہوئی تیزی سے آرہی تھی۔
میں حیران رہ گیا اور سوچا کہ اس ادمی کو کسی بہت ہی ضرور کام سے جانا ہے اس لئے اس نے اپنے کام کے مقابلے میں اپنے زندگی تک کو اہمیت نہ دی میں نے سوچا کہ اپنے کام سے محبت رکھنے والے وقت کے پابند اس بہادر قوم کو کوئی شکست نہیں دے سکتا نہ ہی یہ لوگ کسی کے مختاج رہیں گے۔
انھی سوچوں میں گم جب میں شیر شاہ چوک پہنچا تو دیکھا کہ ایک مداری بندر نچا رہا تھا اور وہ سائیکل والا شخص اپنی سائیکل کو سٹینڈ پر کھڑا کر کے بے فکری کے ساتھ بندر کا تماشہ دیکھ رہا تھا۔۔