بابا بابا ! تِین دِن رہ گئے ہیں قربانی والی
عید میں۔ ہمیں بھی گوشت ملے گا نا؟
بابا : ہاں ہاں کیوں نہی بِالکُل ملے گا۔۔
لیکن بابا پچھلی عید پر تو کسی نے بھی ہمیں
گوشت نہیں دیا تھا، اب تو پورا سال ہو گیا
ہے گوشت دیکھے ہوئے بھی،
نہیں شازیہ :اللہ نے ہمیں بھوکا تو نہیں رکھا،
میری پیاری بیٹی، ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیۓ
ڈاکٹر صاحب قربانی کے لئے بڑا جانور لے کر آئے ہیں،
اور ماسٹر جی بھی تو بکرا لے کر آئےہیں،
ہم غریبوں کے لیے ہی تو قربانی کا گوشت ہوتا ہے،
امیر لوگ تو سارا سال گوشت ہی کھاتے ہیں،
آج عیدالضحٰی پے مولوی صاحب بیان فرما رہے ہیں
کہقربانی میں غریب مسکین لوگوں کونہیں بھولنا چاہئے۔۔
ان کے بہت حقوق ہوتے ہیں۔۔
خیر شازیہ کا باپ بھی نماز ادا کر کےگھر پھنچ گیا،
گھنٹہ بھر انتظار کرنے کے بعد شازیہ بولی۔۔
بابا ابھی تک گوشت نہیں آیا،
بڑی بہن رافیہ بولی۔۔ چپ ہو جاٶ شازی بابا کو تنگ نہ کرو۔
وہ چپ چاپ دونوں کی باتیں سنتا رہا اور نظرانداز کرتا رہا۔۔
کافی دیر کے بعد بھی جب کہیں سے گوشت نہیں آیا تو شازیہ کی ماں بولی۔
سنیۓ میں نے تو پیاز ٹماٹر بھی کاٹ دیۓہیں۔ لیکن کہیں سے بھی گوشت نہیں آیا،
کہیں بھول تو نہیں گۓ ہماری طرف گوشت بجھوانا۔
آپ خود جا کر مانگ لائیں،
شازیہ کی ماں تمہیں تو پتہ ھے آج تک ہم نےکبھی کسی سے مانگانہیں ،
اللہ کوئ نہ کوئ سبب پیدا کرے گا۔۔
دوپہر گزرنے کے بعد شازیہ کے اسرار پر پہلے ڈاکٹر صاحب کے گھر گئے،
اور بولے ڈاکٹر صاحب۔ میں آپ کاپڑوسی ہوں کیا قربانی کا گوشت ملسکتا ہے؟
یہ سننا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا رنگ لال پیلا ہونے لگا،
اور حقارت سے بولے پتہ نہیں کہاںکہاں سے آ جاتے ہیں گوشت مانگنے،
تڑاخ سے دروازہ بند کر دیا ۔۔
توہین کے احساس سے اسکی آنکھوں میں آنسو گۓ۔۔
اور بھوجل قدموں سے چل پڑا راستےمیں ماسٹر جی
کے گھر کی طرف قدم اٹھے اور وہاں بھی وہی دست سوال۔
ماسٹر جی نے گوشت کا سن کرعجیب سی نظروں سے دیکھا اور چلےگۓ۔
تھوڑی دیر بعدد باہر آۓ تو شاپر دے کرجلدی سے اندر چلۓ گۓ۔
جیسے اس نے گوشت مانگ کر گناہ کر دیا ہو۔۔
گھر پہنچ کر دیکھا تو صرف ہڈیاں اور چربی۔۔
خاموشی سے اٹھ کرکمرے میں چلے گئے اور خاموشی سے رونے لگ گئے۔
بیوی آئ اور بولی کوئی بات نہیں۔۔ آپ غمگین نہ ہوں۔
میں چٹنی بنا لیتی ہوں۔۔
تھوڑی دیر بعد شازیہ کمرے میں آئ۔
اور بولی بابا،
ہمیں گوشت نہںں کھانا ۔ میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے ویسے بھی،
یہ سننا تھا کہ آنکھوں سے آنسو گرنےلگے اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے
لیکن رونے والے وہ اکیلے نہیں تھے۔۔
دونوں بچیاں اور بیوی بھی آنسو بہا رہے تھے۔۔
اتنے میں پڑوس والے اکرم کی آواز آئ۔۔
جو سبزی کی ریڑھی لگاتا تھا۔۔
انور بھائی،
دروازہ کھولو،
دروازہ کھولا تو اکرم نے تین چار کلوگوشت کا شاپر پکڑا دیا،
اور بولا ،
گاٶں سے چھوٹا بھائ لایا ہے۔
اتنا ہم اکیلے نہیں کھا سکتے۔
یہ تم بھی کھا لینا
خوشی اورتشکر کے احساس سےآنکھوں میں آنسو آ گۓ ۔
اور اکرم کے لیۓ دل سے دعا نکلنے لگی۔
گوشت کھا کر ابھی فارغ ھوۓ ہی تھے کہ بہت زور کا طوفان آیا ۔
بارش شروع ہو گئ۔ اسکے ساتھ ہیبجلی چلی گئی۔
دوسرے دن بھی بجلی نہی آئی۔
پتہ کیا تو معلوم ہوا ٹرانسفارمر جل گیا۔
تیسرے دن شازیہ کو لے کرباہر آئے تو دیکھا کہ،
ماسٹر جی اور ڈاکٹر صاحب بہت سا گوشت باہر پھینک رہے تھے ۔
جو بجلی نہ ہونےکی وجہ سے خراب ہو چکا تھا۔
اور اس پر کُتے جھپٹ رہے تھے۔
شازیہ بولی،
بابا۔
کیا کُتوں کے لیۓ قربانی کی تھی؟
وہ شازیہ کا چہرہ دیکھتے رہ گیے ۔
اور ماسٹر جی اور ڈاکٹر صاحب نے یہ سُن کر گردن جھکا لی۔
خدرا احساس کریں غریب اور مسکین لوگوں کا۔
یہ صِرف تحریر ھی نہیں،
اپنے آس پاس خود دار مساکین کی ضرورتوں سے ہمہ وقت آگاہ رھنے کی درخواست بھی ھے۔