[14/11, 17:52] Mufti Mahmood Ul Hassan: Hazrat 3 talaaq 3 he hoti hain isky dalail da dain
[14/11, 17:52] Mufti Mahmood Ul Hassan:
اصل میں تین طلاق تین ھی ھوتی ھیں۔ اس لئے کہ لفظ تین کو واضع لغت نے تین کے لئے وضع کیا ھے۔ جس لفظ کو جس معنی کیلئے وضع کیا گیا ھو جب وہ لفظ بولا جاتا ھے تو اس کا وھی معنی مراد ھوتا ھے جس کے لئے اس کو واضع نے کیا ھو ۔یہی دلیل ھے۔ جیسے روٹی بول کر روٹی ھی مراد لی جاتی ھے ۔ روٹی بول کر پانی مراد نہیں لیا جاتا ھے۔
باقی جو حضرات تین کو ایک ، خلاف وضع ، قرار دیتے ھیں۔ دلیل تو ان کے ذمہ ھے۔
البتہ اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ھوتی ھے کہ ان حضرات کو غلط فہمی کہاں سے ھوئی۔
طلاق کی ایک صورت یہ ھے۔ کہ شوھر اپنی بیوی کو ان الفاظ میں طلاق دے ۔” تجھے طلاق طلاق طلاق”
یہ الفاظ اپنے اندر دو احتمال رکھتے ھیں۔ ایک احتمال یہ ھے کہ اس کی مراد ایک ھی طلاق ھے دوسری اور تیسری بار اس نے محض تاکیداً کہاھو۔ اور دوسرا احتمال یہ بھی ھے کہ اس نے تین طلاقیں دی ھیں۔ھر “لفظ طلاق”مستقل ھو۔
اب ایسی صورت میں قائل کی نیت پر فیصلہ ھو گا اس سے اس کی نیت پوچھی جائے گی کہ اس کی نیت کیا ھے۔
اگر وہ کہے کہ ایک طلاق کی نیت تھی۔ تو ایک کا حکم لگے گا۔ اور اگر وہ کہے کہ تین کی نیت تھی تو تین کا حکم لگے گا۔
لھذا دور نبوی ، دور صدیقی اور دور فاروقی کے ابتدائی دو سالوں میں اسی پر عمل ھوتا تھا۔
پھر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ لوگ خیانت سے کام لے رھے ھیں۔
تو آپ نے لوگوں کو متنبہ کیا کہ آئندہ اگر کسی نے یہ طریقِ طلاق اختیار کیا تو تین ھی شمار ھوں گی۔ اس کی تاکید تسلیم نہیں ھوگی۔ لھذا اس حوالے سے محتاط ھو جائیں۔
لھذا اس کے بعد سے لیکر آج تک اس انداز سے دی جانے والی طلاق کو تین ھی تصور کیا جاتا ھے۔
اگر تین کو ایک تصور کرنا ھی ھے۔ تو صرف اس ایک صورت میں تصور کیا جائے۔ لیکن یار لوگ ہر قسم کی تین طلاقوں کو ایک تصور کرتے ھیں۔چاھے ان میں ایک کا احتمال ہو یا نہ ھو ۔ مثلا کوئی شوھر اپنی بیوی کو ان الفاظ سے طلاق دے کہ “تجھے تین طلاق” اب ان الفاظ کا معنی متعین ھے کہ “تین طلاق ” اب اس صورت میں تین سے ایک مراد نہیں لی جا سکتی۔کیونکہ تین کا مطلب تین ھے ایک نہیں۔ جیساکہ روٹی کا مطلب روٹی ھے پانی نہیں۔
مفتی محمود الحسن لاہور