{ اپنے دلوں کو دودھ کے برتن کی طرح صاف و شفّاف رکھیں }
وہ اپنی ساس کی تعریف کر رہی تھی اور پھر اپنا ایک قصہ اس طرح بتایا کہ ایک بار انہوں نے اپنی ساس سے پوچھا کہ
ماں جی آپ نے اپنا دل صاف کرنا کس سے سیکھا؟ انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا
دودھ والے سے۔ میں بھی اس بات پر ہنس پڑی، پھر کچھ دیر قبل جیٹھانی سے فون پر اپنی تلخ کلامی پر شرمندہ ہوتے ہوئے ساس سے مخاطب ہوئی پتہ نہیں غصّے میں زیادہ ہی بول جاتی ہوں، بڑی ہیں مجھ سے لیکن انکی عادتیں بھی تو دیکھیں پچھلی بار بھی ..خیر چھوڑیں آپ بتائیں ناں ماں جی جیسے میں آپ سے اکثر باتیں سیکھتی ہوں آپ نے یہ بات کہاں سے سیکھی ؟کیونکہ میں نے اتنے عرصے میں آپکو لوگوں کی شکایتیں کرتے نہیں دیکھا ،حالانکہ کچھ لوگوں کے بہت غلط رویے بھی آپ کے ساتھ دیکھے ہیں میں نے۔ ماں جی نے بڑی بہو کیساتھ میری بدکلامی کو یکسر نظرانداز کرتے ہوۓ مسکراتے ہوۓ جواب دیا۔
“بیٹا مذاق نہیں سچ بتا رہی ہوں۔ واقعی دودھ والے ہی نے سکھایا تھا یہ سبق ، میں چھوٹی تھی جب کوئی بارہ سال کی رہی ہونگی ،فجر پر بھائی اور ابّا جی تو مسجد گۓ ہوتے امّاں جی صحن میں قران پڑھ رہی ہوتیں کہ دودھ والے بابے کی سائیکل کی گھنٹی بجنی شروع ہو جاتی میں باورچی خانے سے دیگچی لے کر اسے دیتی تو وہ غور سے اسے چیک کرتا۔ سونگھ کر کہتا یہ نہیں بیٹا، دوسرا برتن لے کر آؤ۔ اس میں سے تو ابھی تک سالن کی بو نہیں ختم ہوئی ۔ کسی دن کہتا ۔ نہیں بیٹا، یہ دیکھو سائڈ پر پرانا دودھ چپکا ہوا ہے، یوں تو نیا دودھ پھٹ جائے گا۔
جس دن کبھی دودھ پھٹ جاتا تو اتنا دودھ ضائع ہونے پہ امّاں جی سے خوب ڈانٹ بھی خوب پڑتیں …تین چار سال یہی سلسہ چلتا رہا پھر میری شادی ہو گئی ،کچھ عرصے بعد مسائل شروع ہو گۓ جو سمیٹے نہیں جاتے تھے مجھ سے۔ میں گھٹ گھٹ کے رو رو کے اللہ پاک سے دعا کرتی۔ ایک دن صبح کو اٹھی دیکھا تو چاۓ بنانے کو دودھ نہیں ڈھیر سارا دودھ پھٹ چکا تھا، مجھے یاد آیا اماں جی اس سے طرح طرح کی مٹھائیاں اور پنیر بنا لیا کرتی تھیں۔ سو میں نے بھی آدھے دودھ سے قلاقند آدھے کے پنیر کے پکوڑے بنا لیے، ناشتے میں اتنا اہتمام دیکھ کر سب گھر والے بڑے خوش ہوۓ بڑی تعریفیں ہوئیں سسر نے نیا جوڑا خریدنے کے پیسے سلامی میں دیے
اس دن مجھے شدت سے احساس ہوا کہ لوگ اتنے برے بھی نہیں ہوتے ،یہ انسان کی غلطی ہوتی ہے کہ وہ ہر بار نئے معاملات کو پچھلی ناراضگی سے بھی جوڑ لیتا ہے کہ اس وقت اس نے یوں کیا تھا یوں کہا تھا۔ یہی میری غلطی تھی۔ تب سمجھ آئی کہ دل کی دیگچی کو بھی ایسے ہی ستھرا کرنا پڑتا ہے کہ پھر نیا دودھ پھٹے بھی نہ، اس میں پرانے سالن کی بو بھی نہ آۓ ،اور کبھی غلطی سے پھٹ جاۓ تو ایسے ہی خوب چینی ڈال ڈال کر اسکی مٹھائی بنا لینی چاہیے –