سورہ البقرۃ آیت نمبر 4
وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ﴿۴﴾
ترجمہ:
اور
جو اس (وحی) پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو
آپ سے پہلے اتاری گئی (٥) اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں (٦)
تفسیر:
(٥)
یعنی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ جو وحی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) پر اتاری گئی وہ بھی بالکل سچی ہے اور جو آپ سے پہلے انبیائے کرام
(علیہم السلام) مثلاً حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) وغیرہ پر نازل
کی گئی تھی وہ بھی بالکل سچی تھی اگرچہ بعد میں لوگوں نے اسے ٹھیک ٹھیک
محفوظ نہ رکھا بلکہ اس میں تحریف کردی۔ اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کردیا
گیا کہ وحی کا سلسلہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم ہوگیا، آپ
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوگا جس پر وحی
آئے یا اسے پیغمبر بنایا جائے، کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے صرف آنحضرت
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے والی وحی اور آپ سے پہلے کے انبیاء
(علیہم السلام) پر نازل ہونے والی وحی کا ذکر فرمایا ہے آپ کے بعد کی کسی
وحی کا ذکر نہیں فرمایا۔ اگر آپ کے بعد بھی کوئی نیا پیغمبر آنے والا ہوتا
یا اس کی وحی پر ایمان لانا ضروری ہوتا تو اس کو بھی یہاں بیان فرمایا جاتا
جیسا کہ پچھلے پیغمبروں سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ آپ حضرات کے بعد حضور
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لانے والے ہیں آپ کو ان پر بھی
ایمان رکھنا ہوگا۔ (دیکھئے قرآن
کریم سورة آل عمران آیت 81) (٦) آخرت سے مرادوہ زندگی ہے جو مرنے کے بعد
حاصل ہوگی اور جو ہمیشہ کے لئے ہوگی اور اس میں ہر بندے کو دنیا میں کئے
ہوئے اعمال کا حساب دینا ہوگا اور اسی کی بنیاد پر یہ فیصلہ ہوگا کہ وہ جنت
میں جائے گا یا جہنم میں، اگرچہ یہ آخرت بھی غیب یعنی ان دیکھی چیزوں میں
شامل ہے جس پر ایمان لانے کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا تھا، لیکن آخر میں اسے
علیحدہ کرکے خصوصی اہمیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ
آخرت کا عقیدہ ہی درحقیقت انسان کی سوچ اور اس کی عملی زندگی کو صحیح راستے
پر رکھتا ہے جو انسان یہ یقین رکھتا ہو کہ ایک دن مجھے اللہ کے سامنے پیش
ہو کر اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہے وہ کسی گناہ یا جرم کے ارتکاب پر کبھی
ڈھٹائی کے ساتھ آمادہ نہیں ہوگا۔
آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی