Home مضامین اصلی چور کون

اصلی چور کون

0
37

میں
نے لندن میں بادنگٹن کے علاقے میں رہائش رکھی ہوئی تھی۔ آمدورفت کیلئے
روزانہ زیر زمین ٹرین استعمال کرتا تھا۔ میں جس اسٹیشن سے سوار ہوتا تھا
وہاں پر ایک عمر رسیدہ عورت کے سٹال سے ہو کر گزرنا پڑتا تھا۔ اُسکے سٹال
پر ٹھہر کر اُس سے چند باتیں کرنا میرا معمول تھا اور ساتھ ہی میں روزانہ
اُس سے ایک چاکلیٹ بھی خرید کر کھایا کرتا تھا جس کی قیمت ۱۸ پنس ہوا کرتی
تھی۔ چاکلیٹ کے یہ بار قیمت کی آویزاں تختی کے ساتھ ایک شیلف پر ترتیب سے
رکھے ہوا کرتے تھا۔ گاہک قیمت دیکھ کر اپنی پسند کا خود فیصلہ کر کے خرید
لیتے تھے۔

حسب
معمول ایک دن وہاں سے گُزرتے ہوئے میں اس عورت کے سٹال پر ٹھہرا اور اپنا
پسندیدہ چاکلیٹ بار لینے کیلئے ہاتھ بڑھایا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ
آج وہ چاکلیٹ دو مختلف شیلف میں رکھے ہوئے تھے۔ ایک شیلف میں رکھے ہوئے کی
قیمت حسبِ معمول ۱۸ پنس ہی تھی مگر دوسرے شیلف میں رکھے ہوئے کی قیمت ۲۰
پنس لکھی ہوئی تھی۔

میں
نے حیرت کے ساتھ اُس عورت سے پوچھا؛ کیا یہ چاکلیٹ مختلف اقسام کی ہیں؟ تو
اُس نے مختصرا کہا نہیں بالکل وہی ہیں۔ اچھا تو دونوں کے وزن میں اختلاف
ہو گا؟ نہیں دونوں کے وزن ایک بھی جیسے ہیں۔ تو پھر یقینایہ دونوں مختلف
فیکٹریوں کے بنے ہوئے ہونگے؟ نہیں دونوں ایک ہی فیکٹری کے بنے ہوئے ہیں۔

میری
حیرت دیدنی تھی اور میں حقیقت جاننا چاہتا تھ، اسلیئے میں نے اس بار تفصیل
سے سوال کر ڈالا؛ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایک شیلف میں رکھے ہوئے چاکلیٹ کی
قیمت ۱۸ پنس ہے جبکہ دوسرے شیلف میں رکھے ہوؤں کی قیمت ۲۰ پنس! ایسا کیوں
ہے؟

اس
بار اُس عورت نے بھی مُجھے پوری صورتحال بتانے کی غرض سے تفصیلی جواب دیتے
ہوئے ہوئے کہا کہ آجکل نائجیریا میں جہاں سے کاکاؤ آتا ہے کُچھ مسائل چل
رہے ہیں جس سے وجہ سے چاکلیٹ کی قیمتوں میں ناگہانی طور پر اضافہ ہو گیا
ہے۔

میں
نے یہاں عورت کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ مادام، آپ سے بیس پنس کی چاکلیٹ
کون خریدے گا جبکہ وہی اٹھارہ پنس کی بھی موجود ہے؟ عورت نے کہا؛ میں جانتی
ہوں ایسا کوئی بھی نہیں کرے گا۔ مگر جیسے ہی پُرانی قیمت والے چاکلیٹ ختم
ہوں گے لوگ خود بخود نئی قیمتوں والے خریدنے لگیں گے۔

اپنی
فطرت اور ماحول پروردہ خوبیوں کے ساتھ، روانی میں کہیئے یا اپنی عادتوں سے
مجبور، میں نے کہا؛ مادام، آپ دونوں چاکلیٹ ایک ہی خانے میں رکھ کر بیس
پنس والی نئی قیمت پر کیوں نہیں بیچ لیتیں؟

میری
بات سُننا تھی کہ عورت کے تیور بدلے، چہرے پر موت جیسی پیلاہٹ مگر آنکھوں
میں خوف اور غصے کی ملی جُلی کیفیت کے ساتھ لرزتی ہوئی آواز میں مُجھ سے
بولی؛ کیا تو چور ہے؟

اب آپ خود ہی سوچ کر بتائیے کیا میں چور ہوں؟ یا وہ عورت جاہل اور پاگل تھی؟ اور شاید عقل و سمجھ سے نا بلد، گھاس چرنے والی حیوان

عورت!

اچھا میں مان لیتا ہوں کہ میں چور ہوں تو یہ سب کون ہیں جو غلہ اور اجناس خریدتے ہی اس وجہ سے ہیں کہ کل مہنگی ہونے پر بیچیں گے۔

کس جہنم میں ڈالنے کیلئے پیاز خرید کر رکھے جاتے ہیں جو مہنگے ہونے پر پھر نکال کر بیچتے ہیں۔

اُن
لوگوں کیلئے تو میں کوئی ایک حرف بھی نہیں لکھنا چاہتا جن کی چینی گوداموں
میں پڑے پڑے ہی مہنگی ہوجاتی ہے۔ نہ ہی مُجھے اُن لوگوں پر کوئی غصہ ہے جو
قیمت بڑھاتے وقت تو نہیں دیکھتے کہ پہلی قیمت والا کتنا سٹاک پڑا ہے مگر
قیمتیں کم ہونے پر ضرور سوچتے ہیں کہ پہلے مہنگے والا تو ختم کر لیں پھر
سستا کریں گے۔

کیا
ہمارے تجار نہیں جانتے کہ مخلوق خدا کو غلہ و اجناس کی ضرورت ہو اور وہ
خرید کر اس نیت سے اپنے پاس روک رکھیںکہ جب او ر زیادہ گرانی ہو گی تو اسے
بیچیں گے یہ احتکار کہلاتا ہے۔ روزِ محشر شفاعت کے طلبگار شافعیِ محشر صلی
اللہ علیہ وسلم کاغلہ کے احتکار اور ذخیرہ اندوزی پر کیا فرمان اور کیا
وعید ہے کو تو نہیں سُننا چاہتے کیونکہ وہ فی الحال اپنی توندوں اور
تجوریوں کو جہنم کی آگ سے بھرنے میں جو لگے ہوئے ہیں۔

مُجھے
کسی پر غصہ اور کسی سے کوئی ناراضگی نہیں، میں تو اُس جاہل عورت پر ناراض
ہوں جس نے محض میرے مشورے پر مُجھے چور کا خطاب دیدیا۔ اچھا ہے جو وہ
برطانیہ میں رہتی تھی، ادھر آتی تو حیرت سے دیکھتی اور سوچتی کہ وہ کس کس
کو چور کہے! اور اُسے کیا پتہ کہ جسے بھی وہ چور کہنا چاہے گی وہ چور نہیں
بلکہ ہمارے سید، پیر، مخدوم، شیخ، حکام اور ہمارے راہنما ہیں۔

جاہل کہیں کی!

٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭

NO COMMENTS

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here