⛓ *بے حیائی کی تشہیر و اشاعت اور قرآن* ⛓
بے حیائی و بے شرمی کا طوفانِ بدتمیزی پاکستان اور دیگر مسلم معاشروں میں مغربی اقدار و اخلاقی زوال کا ہی پھیلاؤ ہے جو فرد کو اپنی بے لگام نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کی بے قید آزادی freedom دیتا ہے۔ اس مادر پدر تصورِ آزادی میں یہود و نصارٰی Jews n Christian کی مقدس کتاب بائبل نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے جسمیں انبیاء علیہم السّلام کے ساتھ نازیبا اور فحش واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔
☠ سیکس انڈسٹری اربوں ڈالر کی بین الاقوامی صنعت بن چکی ہے۔ پاکستان میں ہر سال تقریباً 9 لاکھ عورتیں اسقاطِ حمل Miscarriageکراتی ہیں۔
اسکے برعکس اسلام شرم و حیاء کے معاملے میں کوئی مصالحت و سمجھوتہ compromise کرنے یا دستبرداری surrender اختیار کرنے کو تیار نہیں۔ وہ فرد individual کو اپنی جنسی یا نفسانی خواہشات پورا کرنے کی اجازت دیتا ہے مگر ساتھ ساتھ اسے حدود و قیود کا پابند بھی کرتا ہے تاکہ ایک باکردار اور صحت مند خاندان Family اور معاشرہ Society قائم کیا جاسکے۔
قرآن حکیم کی صرف ایک آیت کی تفسیر مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کے حوالے سے بیان کی جارہی ہے تا کہ بحیثیتِ مسلمان ہم یہ جان سکیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اور ہمیں بے حیائی Immodesty اور فحش نگاری Pornography کی روک تھام اور سدباب کو کس قدر اہمیت دینی چاہئے۔فاعتبرو یا اولی الابصار
*اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِیۡعَ الۡفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۙ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۹﴾ (النور24: 19)*
ترجمہ: *یاد رکھو کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے ، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے ۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔* (مفتی تقی عثمانی)
⭐ابنِ کثیر ؒ فرماتے ہیں:
برائی کی تشہیر نہ کرو یہ تیسری تنبیہ ہے کہ جو شخص کوئی ایسی بات سنے ، اسے اس کا پھیلانا حرام ہے جو ایسی بری خبروں کو اڑاتے پھیرتے ہیں ۔
▪دنیوی سزا یعنی حد بھی لگے گی اور
▪اخروی سزا یعنی عذاب جہنم بھی ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ عالم ہے ، تم بےعلم ہو ، پس تمہیں اللہ کی طرف تمام امور لوٹانے چاہئیں ۔ حدیث شریف میں ہے بندگان اللہ کو ایذاء نہ دو ، انہیں عار نہ دلاؤ ۔ ان کی خفیہ باتوں کی ٹوہ میں نہ لگے رہو ۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیوب ٹٹولے گا ۔ اللہ اس کے عیبوں کے پیچھے پڑ جائے گا اور اسے یہاں تک رسوا کرے گا کہ اس کے گھر والے بھی اسے بری نظر سے دیکھنے لگیں گے۔
⭐حافظ صلاح الدین یوسف کہتے ہیں:
جہاں بے حیائی کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت کو بھی اللّٰہ تعالیٰ نے بے حیائی سے تعبیر فرمایا ہے اور اسے دنیا میں عذابِ الیم کا باعث قرار دیا ہے، جس سے بے حیائی کے بارے میں اسلام کے مزاج کا اور اللّٰہ تعالیٰ کی منشا کا اندازہ ہوتا ہے کہ محض بے حیائ کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت عنداللہ اتنا بڑا جرم ہے تو جو لوگ
▪رات دن ایک مسلمان معاشرے میں اخبارات، ریڈیو، ٹی وی اور فلموں ڈراموں (وغیرہ) کے ذریعے بے حیائ پھیلا رہے ہیں اور گھر گھر اسے پہنچا رہے ہیں، اللّٰہ کے ہاں یہ لوگ کتنے بڑے مجرم ہونگے؟ اور
▪ان اداروں میں کام کرنے والے کیونکر (کیسے) اشاعت فاحشہ کے جرم سے بری الزمہ قرار پائیں گے؟
⭐ مولانا مودودی فرماتے ہیں:
موقع و محل کے لحاظ سے تو آیت کا براہ راست مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ اس طرح کے الزامات گھڑ کر اور انہیں اشاعت دے کر مسلم معاشرے میں بد اخلاقی پھیلانے اور امت مسلمہ کے اخلاق پر دھبہ لگانے کی کوششیں کر رہے ہیں وہ سزا کے مستحق ہیں ۔ لیکن
▪آیت کے الفاظ فحش پھیلانے کی تمام صورتوں پر حاوی ہیں ۔ ان کا اطلاق عملاً بد کاری کے اڈے قائم کرنے پر بھی ہوتا ہے اور
▪بد اخلاقی کی ترغیب دینے والے اور اس کے لیے جذبات کو اکسانے والے قصوں ، اشعار ، گانوں ، تصویروں اور کھیل تماشوں پر بھی ۔
▪نیز وہ کلب اور ہوٹل اور دوسرے ادارے بھی ان کی زد میں آ جاتے ہیں جن میں مخلوط رقص اور مخلوط تفریحات کا انتظام کیا جاتا ہے ۔
قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ یہ سب لوگ مجرم ہیں ۔ صرف آخرت ہی میں نہیں دنیا میں بھی ان کو سزا ملنی چاہیے ۔
▪لہٰذا ایک اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ اشاعت فحش کے ان تمام ذرائع و وسائل کا سد باب کرے ۔ اس کے قانون تعزیرات میں ان تمام افعال کو مستلزم سزا ، قابل دست اندازی پولیس ہونا چاہیے جن کو قرآن یہاں پبلک کے خلاف جرائم قرار دے رہا ہے اور فیصلہ کر رہا ہے کہ ان کا ارتکاب کرنے والے سزا کے مستحق ہیں ۔
▪ یعنی تم لوگ نہیں جانتے کہ اس طرح کی ایک ایک حرکت کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں ، کتنے افراد کو متاثر کرتے ہیں اور مجموعی طور پر ان کا کس قدر نقصان اجتماعی زندگی کو اٹھانا پڑتا ہے ۔ اس چیز کو اللہ ہی خوب جانتا ہے ۔ لہٰذا اللہ پر اعتماد کرو اور جن برائیوں کی وہ نشان دہی کر رہا ہے انہیں پوری قوت سے مٹانے اور دبانے کی کوشش کرو ۔
▪یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں ہیں جن کے ساتھ رواداری برتی جائے ۔ دراصل یہ بڑی باتیں ہیں جن کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا ملنی چاہیے۔
⭐ ڈاکٹر اسرار احمد کہتے ہیں:
۔۔بہرحال ایسے واقعات کو خبر بنا کر شائع کرنا بہت بڑا جرم ہے اور جو لوگ بھی اسکے زمہ دار ہیں وہ اس آیت کے مصداق ہیں
▪شریعت کا حکم تو یہ ہےکہ اگر کہیں کوئی غلطی ہوئی بھی ہے تو حتی الوسع برائی کا چرچا نہ کیا جائے لیکن اگر قانونی تقاضے پورے ہوتے ہوں تو مجرموں کو کٹہرے میں ضرور لایا جائے
▪اور انہیں ایسی سزا دلوائی جائے کہ ایک کو سزا ہو اور ہزاروں کے لئے باعثِ عبرت ہو۔
⭐ مولانا احمد رضا خان بریلوی کی تفسیر میں ہے:
▪یعنی اس جہان میں اور وہ حد قائم کرنا ہے چنانچہ ابن ابی اور حسان اور مسطح کے حد لگائی گئی۔
▪دوزخ، اگر بے توبہ مر جائیں۔