محترم سرفراز
شاہ صاحب
جاگ بنا دودھ
نہیں جمدا پاوئیں لال ہو ئے کڑھ کڑھ
ہم سب
نے اس شعر کا غلط مطلب اخذ کیا ہوا ہے ،ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دودھ میں جاگ
لگانے سے ہی دہی جم سکتی ہے بالکل اسی طرح رب کو پانے کے لیے بھی مرشد کا ہو نا
ضروری ہے ،حالانکہ یہ ضروری نہیں ہے ۔رب تعالی ایک عظیم ہستی ہے وہ یہ نہیں دیکھتا
ہے کہ اس کو کن الفاظ سے پکارا جا رہا ہے بلکہ رب تعالی پکارنے والے کا اخلاص
دیکھتا ہے ۔ اگر آپ رب تعالی کے نزدیک ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک ملغوبہ تیار
کرنا پڑے گا جس میں سب سے پہلے اپنی سوچ کو پاکیزہ کرنا پڑے گا ۔اب سوال یہ ہے کہ
سوچ کو مثبت کیسے کیا جائے ،اس کے لیے انسان جب فقیر کی زندگی کا جائزہ لیتا ہے تو
اس کوپتا چلتا ہے کہ فقیر صرف اپنی ذات کی خامیوں پر نظر رکھتا ہے اور اسے دوسرے
کی ذات کی خامیاں نظر نہیں آتیں۔دوسری بات بہت اہم ہے کہ ہمارے اعمال سنت یا سیرت
کے مطابق ہوں ۔رب تعالی بہت مہربان ہے اوراس کے بارے میں حساس ہے ۔انسان کواس
انسان سے ڈرنا چاہیے جو زیادتی کے جواب میں مسکرا دیتا ہے اور جواب نہیں دیتا ،اس
کی وہ مسکراہٹ عرش کو ہلا دیتی ہے پھر رب تعالی اس کا جواب دیتا ہے ۔
تیسری بات جو
بہت اہم ہے کہ اللہ کے حقوق یعنی عبادات کو احسن طریقے سے اداکریں پھر آپ اللہ کے
قریب ہو جائیں گے ۔انسان کو اس وقت مرشد یا استاد کی ضرورت ہوتی ہے جب اس کے پاس
علم آجاتا ہے ، کیونکہ اس وقت بھٹکنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں تو استاد یا مرشد
اس کو بھٹکنے سے روکتا ہے ۔بعض اوقات انسان علم کے تکبر میں اس قدر کھو جاتا ہے کہ
اس کو احساس ہی نہیں ہو تا ۔یہ تکبر ایسا ہی ہوتا ہے جیسے گھر کی چھت پر پانی جمع
ہوجاتا ہےاور چھت میں آہستہ آہستہ سرایت کرکے ایک دن اس کو گرا دیتا ہے ،تکبر
اور غرور انسان کی شخصیت کو لے ڈوبتا ہے اور انسان کو معلوم بھی نہیں ہو تا ہے
۔ایسے میں استاد یا مرشد کاکام راہِ راست پر رکھنا ہوتا ہے۔