و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سجدہ کی حالت میں انسان اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے اور اس حالت میں دعا کی قبولیت کی زیادہ امید ہے، اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی دعا قبول فرماتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“عن أبي هریرة رضي الله عنه أن رسول الله صلی الله علیه و سلم قال:” أقرب ما یکون العبد من ربه و هو ساجد؛ فأکثروا الدعاء”. (صحیح مسلم، کتاب الصلاة باب ما یقال فی الرکوع و السجود رقم الحدیث :١١١١)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : “بندہ اپنے رب کے قریب ترین اس وقت ہوتا ہے جس وقت وہ سجدے کی حالت میں ہو؛ لہذا سجدے کی حالت میں زیادہ سے زیادہ دعا کرو”۔
ایک دوسری راویت میں ان الفاظ کی زیادتی بھی ہے:
“و أما السجود فاجتهدوا في الدعاء، فقمن أن یستجاب لکم”. (صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب النهي عن قراء ة القرآن في الرکوع و السجود ، رقم الحدیث:١١٠٢)
ترجمہ: “سجدے میں زیادہ سے زیادہ دعا کی کوشش کرو، عین ممکن ہے کہ تمہاری دعا قبول ہو جائے”.
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو روایات سجدہ میں دعا کرنے سے متعلق ملتی ہیں وہ نفلی نمازوں کے سجدوں میں دعا مانگنے سے متعلق ہیں، الگ سے سجدہ کرکے دعا مانگنے کا کسی حدیث سے صراحتاً ثبوت نہیں ملتا۔ لہٰذا نماز کے باہر الگ سے سجدہ کرکے اس میں دعا مانگنے کی عادت نہیں بنانی چاہیے، سجدے میں دعا کرنی ہو تو نفلی نمازوں کے سجدوں میں عربی زبان میں دعائیں مانگنی چاہییں۔
بعض لوگ فرض نماز کے بعد سجدہ کرکے اس میں دعا مانگتے ہیں، اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں فتاوی رحیمیہ میں ہے:
’’اس طرح کا سجدہ سجدہ مناجات کہلاتا ہے اس کی بارے میں بعض علماءِ دین کا قول ہے کہ مکروہ ہے ۔ مشکاۃ شریف کی شرح اشعۃ اللمعات میں ہے ۔ سوم سجدہ مناجات بعد از نماز وظاہرکلام اکثر علماء آنست کہ مکروہ است (اشعۃ للمعات ج ۱ص ۶۲۰) (شرح سفر السعادۃ۔ ص ۱۵۹) لہذا اس کی عادت بنا لینا غلط ہے ۔ دعا اورمناجات کا مسنون طریقہ جس کی مسنونیت میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے اس کو ترک کر کے اختلافی طریقہ اختیار کرنا مناسب نہیں ہے ۔ سجدہ میں دعا کرنے کی جو روایت ہے ۔ اس کے متعلق شرح سفر السعادۃ میں ہے وآنکہ در آحادیث آمدہ است کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم در سجدہ اطالت میفر مودود عابسیار میکرد مراد بدں سجدہ‘ صلاتیہ است (ص ۱۵۹) یعنی حدیثوں میں جو وارد ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ طویل فرماتے اور بہت دعا کیا کرتے تھے۔ اس سے مراد وہی سجدہ ہے جو نفل نماز میں کیا کرتے تھے ۔ پس تہجد کے سجدہ میں وہ دعائیں پڑھی جاسکتی ہیں جو احادیث میں وار د ہوئی ہیں. فقط و ﷲ اعلم‘‘۔ فقط واللہ اعلم
مفتی ڈاکٹر سلمان صاحب لاہور