“جب وہ گہری سانس لے”
مجھ سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ وہ کیا چیز ہے جو جاندار نہیں ہے لیکن سانس لیتی ہے؟
میں عجیب اچنبھے میں پڑ گیا کہ بھلا وہ کیا چیز ہوسکتی ہے جو جاندار نہ ہو لیکن سانس لیتی ہو؟
کافی دیر کے بعد اچانک قرآن کی یہ آیت ذہن میں کوندی:-
“وَالصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَ “
اور قسم ہے صبح کی جب وہ گہری سانس لے ۔۔!!
میں نے جواب دیا کہ وہ صبح ہے جو جاندار تو نہیں لیکن سانس لیتی ہے سائل نے تعریف کی لیکن میں الجھ گیا کہ صبح بھلا کیسے سانس لے سکتی ہے؟
تفاسیر وغیرہ کھول کر دیکھیں تو مفسرین نے تنفس کا ترجمہ زندہ ہو جانے سے کیا تھا کہ جیسے سانس لے کر انسان زندہ ہوتا ہے اسی طرح صبح بھی ہر دن زندہ ہوتی ہے کچھ نے صبح کو سانس لینا اور رات کو سانس چھوڑنا تعبیر کیا۔ بعض نے کہا کہ لیل سے مراد اسلام سے پہلے کی تاریکی تھی اور یہاں صبح سے مراد حضور ﷺ کی بعثت کا اجالا ہے۔
کل ایک تفسیر پڑھی تو حیران رہ گیا:- آپ کو معلوم ہے کہ جب ہم سانس لیتے ہیں تو اپنے اندر آکسیجن سمیٹ لیتے ہیں اور جب چھوڑتے ہیں تو کاربن ڈائی آکسائیڈ نکالتے ہیں۔
اللہ نے قران میں صبح کی قسم کھائی اور فرمایا کہ جب وہ “گہری” سانس لے۔
عجیب معاملہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ہی سائنس نے “فوٹوسینتھیسس” کا عمل ایجاد کیا ہے جس میں درخت ایک غیر حسی طریقے سے ہوا میں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اپنے اندر سمو کر آکسیجن کا اخراج کرتے ہیں۔ اور یہ عمل صبح کے وقت سب سے زیادہ عروج پر ہوتا ہے یعنی دنیا میں سب سے زیادہ آکسیجن کی مقدار صبح کے وقت پائی جاتی ہے اور یہی دنیا کی گہری سانس ہوتی ہے۔ یہ عمل بتدریج کم ہوتا جاتا ہے، دوپہر میں ہلکا ہوتا ہے، شام میں ختم ہوتا ہے اور رات میں الٹا ہوجاتا ہے کہ درخت آکسیجن کی بجائے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرنے لگتے ہیں لیکن پھر اگلی صبح وہی عمل دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔
میں شدید حیران ہوا کہ قرآن کی ایک چھوٹی سی آیت نے سائنس کا اتنا بڑا معمہ سینکڑوں سال پہلے کیسے بتا دیا تھا!!
جس طرح میں حیران ہوا اسی طرح ریسرچ کرنے والے بھی متحیر رہ جاتے ہیں جب انکی کسی حالیہ دریافت کا تذکرہ کوئی 1440 سال پہلے نازل ہوئے قرآن کے حوالے سے کرتا ہے۔۔۔!!!
واقعی قرآن ایک معجزاتی کتاب ہے