اس سلسلے میں حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ علامات بیان فرمائی ہیں :
پہلی علامت:
جب انسان فانی چیزوں کو باقی چیزوں پر ترجیح دینے لگے تو وہ سمجھ لے کہ میرا دل بیمار ہے ، مثلاً دنیا کا گھر اچھا لگتا ہے مگر آخرت کا گھر بنانے کی فکر نہیں ہے ۔ دنیا میں عزت مل جائے مگر آخرت کی عزت یا ذلت کی سوچ دل میں نہیں ۔ دنیا میں آسانیاں ملیں مگر آخرت کے عذاب سے بچنے کی پرواہ نہیں ۔
دوسری علامت:
جب انسان رونا بند کردے تو وہ سمجھ لے کہ اس کا دل سخت ہوچکا ہے ۔ یاد رہے کہ کبھی انسان کی آنکھیں روتی ہیں اور کبھی انسان کا دل روتا ہے ۔ دل کا رونا آنکھوں کے رونے پر فضیلت رکھتاہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ آنکھ سے پانی کا نکلنا ہی رونا کہلاتا ہے، بلکہ اللہ کے کئی بندے ایس بھی ہوتے ہیں کہ ان کےدل رو رہے ہوتے ہیں ، حالانکہ ان کی آنکھوں سے پانی نہیں نکلتا ، مگر ان کا دل سے رونا اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو جاتا ہے اور ان کی توبہ کے لئے قبولیت کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔ تو دل اور آنکھوں میں سے کوئی نہ کوئی چیز ضرور روئے ۔ اور بعض تو ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی دونوں چیزیں رو رہی ہوتی ہیں ۔ آنکھیں بھی رو رہی ہوتی ہیں اور دل بھی رو رہا ہوتا ہے ۔
تیسری علامت:
مخلوق سے ملنے کی تو تمنا ہو لیکن اسے اللہ رب العزت سے ملنا یاد ہی نہ ہو۔۔۔۔ تو سمجھ لے کہ یہ میرے دل کی موت ہے ۔ لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ ایسے تعلقات ہوتے ہیں کہ ان کے دل میں ایک دوسرے سے ملنے کی تمنا ہوتی ہے وہ اداس ہوتے ہیں اور انہیں انتظار ہوتا ہے ، مگر اسے اللہ رب العزت کی ملاقات یاد ہی نہیں ہوتی ۔
چوتھی علامت:
جب انسان کا نفس اللہ رب العزت کی یاد سے گھبرائے اور مخلوق کے ساتھ بیٹھنے سے خوش ہو تو وہ بھی دل کی موت کی پہچان ہے ۔ اللہ کی یاد سے گھبرانے کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان کا دل تسبیح پڑھنے ، ذکر اذکار کرنے اور مراقبہ کرنے سے گھبرائے ۔ اسے مصلےٰ پر بیٹھنا بوجھ محسوس ہوتا ہو ۔ ایک موٹا سا اصول سمجھ لو کہ اگر بندے کا اللہ تعالی کے ساتھ تعلق دیکھنا ہو تو اس کا مصلے پر بیٹھنا دیکھ لو۔ ذاکر انسان مصلے پر اسی سکون کے ساتھ بیٹھتا ہے جس طرح بچہ ماں کی گود میں سکون کےساتھ بیٹھتا ہے اور جس کے دل میں کجی ہوتی ہے اس کے لیے مصلے پر بیٹھنا مشکل ہوتا ہے ۔ وہ سلام پھیر کر مسجد سے بھاگتا ہے ۔ کئی تو ایسے بدنصیب ہوتے ہیں کہ مسجد میں آنے کے لیے ان کا دل آمادہ ہی نہیں ہوتا .