مجھے چند برس قبل نیویارک میں اس کا سیشن اٹینڈ کرنے کا موقع ملا‘ وہ سیشن خاصا مہنگا تھا لیکن میں نے جو سیکھا وہ سیشن کی فیس سے کہیں قیمتی‘ کہیں مہنگا تھا۔
مثلاً میکس ویل نے ہال میں موجود شرکاءمیں سے ایک صاحب کو سٹیج پر بلایا‘ اسے اپنے سامنے کھڑا کیا‘ اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا اور اسے نیچے دبانا شروع کر دیا‘ وہ شخص تگڑا تھا‘ وہ اکڑ کر کھڑا رہا‘ میکس ویل نے پورا زور لگانا شروع کر دیا‘ وہ شخص دبنے لگا اور وہ آہستہ آہستہ نیچے بیٹھتا چلا گیا‘ میکس ویل بھی اسے دبانے کے لیے نیچے ہوتاچلا گیا‘ وہ شخص آخر میں تقریباً لیٹ گیا‘ میکس ویل نے اس کے بعد اسے اٹھایا اور ہم شرکاءسے مخاطب ہوا ” آپ نے دیکھا مجھے اس شخص کو دبانے کے لیے کتنا زور لگانا پڑا‘ دوسرا یہ جوں جوں نیچے جا رہا تھا میں بھی اس کے ساتھ ساتھ نیچے جا رہا تھا یہاں تک کہ ہم دونوں زمین کی سطح تک پہنچ گئے“ وہ اس کے بعد رکا‘ لمبی سانس لی اور بولا
”ہم جب بھی زندگی میں کسی شخص کو نیچے دبانے کی کوشش کرتے ہیں تو صرف ہمارا ہدف نیچے نہیں جاتا ہم بھی اس کے ساتھ زمین کی سطح تک آ جاتے ہیں جب کہ اس کے برعکس ہم جب کسی شخص کو نیچے سے اٹھاتے ہیں تو صرف وہ شخص اوپر نہیں آتا‘ ہم بھی اوپر اٹھتے چلے جاتے ہیں‘ ہمارا درجہ‘ ہمارا مقام بھی بلند ہو جاتا ہے“ وہ اس کے بعد رکا اور بولا ”جینوئن لیڈر کبھی کسی کو نہیں دباتا‘ وہ ہمیشہ دبے ہوﺅں کو اٹھاتا ہے اور ان کے ساتھ ساتھ خود بھی اوپر اٹھتا چلا جاتا ہے‘ وہ بلند ہوتا رہتا ہے“۔
میکس ویل کی دبانے اور اٹھانے کی تھیوری میں بہت جان ہے‘ آپ اپنے دائیں بائیں دیکھ لیں‘ آپ کو دوسروں کو دبانے والا ہر شخص ان کے ساتھ نیچے جاتا بھی نظر آئے گا اور اپنی ساری توانائیوں سے محروم ہوتا بھی۔