محشر میں جو شیخ آئے تو اعمال ندارد
مولانا عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں:
’’لکھنؤ میں ایک شاعر تھے معمولی سے، اور غزل سے بڑھ کر ہزل سے ذوق رکھنے والے، لیکن قادرِ مطلق جس کی زبان سے جو چاہے سنوا دے، ان کا یہ شعر جب پہلی مرتبہ سننے میں آیا تو جسم پر سناٹا چھا گیا:
محشر میں جو شیخ آئے تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
اور دل نے کہا کہ یہ کسی اور کے حق میں ہو یا نہ ہو، اس کم نصیب کے حق میں تو ضرور ہے۔
جب یہ عوامی زبان میں شیخ کہلانے والے محشر میں لائے گئے تو وہاں قدرتاً پرسش اعمال کی ہوئی، یہاں ان کا سرمایہ تھا ہی کہاں جو پیش ہوتا ۔
’’اعمال ندار‘‘ جو کچھ تھا وہ تو فقط مالِ تجارت تھا کہ دوسروں کو کچھ سنا دیا، کچھ بتا دیا،
اس کاروبار سے اپنی اصلاح کیا ہوئی،
اپنے قلب میں تصفیہ و تزکیہ کیا ہوا؟
اپنی روح میں جلا کہاں سے پیدا ہوئی؟
*’’جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندار ‘‘*
(بقلم مولانا عبدالماجد دریا آبادی۔بحوالہ،صدقِ جدید،16 مارچ 1967)
دین کا کام کرنے والے علماءِ کرام، وعظ و نصیحت کرنے والے خطباء کرام اور داعی حضرات کیلئے اس مختصر اقتباس میں بہت بڑا پیغام ہے۔
خدانخواستہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ’’محشر میں جو شیخ آئے تو اعمال ندارد‘‘ والی کیفیت ہو جائے۔ اسلئے اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے۔