ہمارا مسلہ صرف بدعت و شرک، ملاوٹ اور رشوت ہی نہیں، بلکہ مرد خواتین کی دفتروں محلے ، خاندانوں ,اور تعلیمی اداروں ہر سطح پر بڑھتی ہوئی بے تکلفی اور بے حیائی بھی ہے -کون نہیں جانتا کہ فلموں اور ہر روز کے ڈراموں میں دکھاۓ جانے والے خرافاتی گھٹیا تعلقات ہمارے معاشرے میں بھی تیزی سے پھیل رہے ہیں –تین گھنٹے کی فلم ہو یا ہزار قسطوں کا ڈرامہ کہانی بن ہی نہیں سکتی جب تک کہ بے پردگی اور دین سے دوری نہ ہو تو یہ سب سبق آموز کیسے ہو گیا ؟ روک تھام نہ کی گئی تو خدانخواستہ عبرت آموز ضرور ہو سکتا ہے ہم سب کا معاملہ .
جب بجلی نئی نئی آئی تھی تو بعض گھروں میں بارش کے دوران غلط یا غیر معیاری بجلی کے تاروں کی وجہ سے ،برقی آلات کے علاوہ ،گھر کی دیواروں میں ،نلکوں اور پانی میں حتی کہ گیس کے چولہوں تک میں کرنٹ آجاتا تھا -لوگوں کو اپنے گھر میں ہی جاۓ پناہ نہ ملتی جس چیز کو ہاتھ لگاو بجلی کا جھٹکا –یہی حال ہم نے اس ٹیکنالوجی کا کیا ہوا ہے کہ سہولت کو لت بنا ڈالا ،اب تو نہ گھنٹی بجتی ہے نہ باتیں ہوتی ہیں کہ کسی دوسرے کے کان کھڑے ہوں ،خاموشی سے جس سے چاہا جو چاہا چٹ چیٹ کی چاٹ سے لطف اندوز ہوتے رہے –جس قدر فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے دونوں جہانوں کا اس سے دگنا نقصان اٹھا رہے ہیں اورجسطرح زکام یا کینسرکسی کو بھی ہو جاتا ہے ،یہ وباء بھی چھوت کے مرض کی طرح ،لادین افراد میں جتنی دکھائی دیتی ہے “دیندار” افراد بھی محفوظ نہیں اور عمر، جنس، شادی شدہ، ہونے نہ ہونے کی بھی کوئی قید نہیں اور جوان بچوں کے ہوتے ہوئے ان کے والدین کو ہوش نہیں کہ وہ لمحاتی جذباتی تسکین کے لیے کسی نامحرم سے دکھ سکھ بانٹنے کے نام پر کس دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں–اگر گھر چھوٹے اور خاندان بڑے ہیں تب بھی ،دیور بھابھی ،سالی ،بہنوئی ،سالے کی بیگم محلے کی بھابھی یا بھائی صاحب ،دفتر کی میڈم فلانی بزرگ خاتون یا نو عمر بچوں کی آپس میں اپنی حدود و قیود فراموش کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دینی چاہیے، لیکن ہمارے ہاں ان رشتوں میں اور بغیر رشتوں کے بھی آپس کی ہلکی پھلکی نوک جھونک کو ایسی جلا بخشی جاتی ہے کہ بس یہی تو رشتوں میں پاکیزگی اور مضبوطی کی بنیاد ہو گویا –زندگی میں کوئی قائدہ قانون ہی نہیں رہ گیا ہے جب مخلوط محفلیں اور دوستیاں ہونگی تو کسی کو بھی کوئی بھی اچھا لگنا شروع ہو جائے تو کچھ عجب نہیں-سمارٹ فون ہاتھ میں لیے معاشرہ اتنا نڈر اور بیباک ہو کہ دل میں خدا خوفی کی جگہ طفلی اور سفلی خواہشات ختم ہونے میں نہ آتی ہوں تو کیا کریں
بنیادی طور پر اس میں چار طرح کے لوگ شامل ہیں ،
1. وہ جن کی ناک کے نیچے انہیں دھوکہ دیا جا رہا ہوتا
2. وہ جو اپنی دنیا میں مگن بنا کسی بری نیت کے فساد فی الارض کا گناہ سمیٹ رہے ہوتے ہیں –
3. وہ جوسمجھدار ہونے کے باوجود پھسل جاتے ہیں اور
4. وہ جو بظاہر دوسروں کو لیکن اصل میں خود کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں ،دوسروں پر اور اپنی جان پر ظلم کر کے خفیہ غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں
–دھوکہ کھانے والے کیا کریں ؟وہی جو ہر برائی کے لیے حکم ہے کہ اسے جس حد تک ممکن ہو حکمت کے ساتھ زبان سے ہاتھ سے روکو ممکن نہ ہو تب دل میں برا جانو جو کہ آخری درجے کا عمل ہے –وہی جو ہیروئن کے عادی فرد کے ساتھ کیا جا سکتا ہے، سب سے پہلے حقیقت کو اسکی تمام تر تلخیوں کے ساتھ قبول کرنا -دوسرا تحمل ،تدبر حکمت و ہمت کے ساتھ معاملہ کرنا ،دعا توکل -برداشت صبر اور عفو کا دامن نہ چھوڑنا کیونکہ بہت سے لوگ گناہوں سے واپسی کا راستہ صرف اس وجہ سے بھی ترک کر دیتے ہیں کہ دوسری طرف معافی کے بجاۓ عمر بھر کے طنز و طعنوں کے نشتر دکھائی دیتے ہیں
غافل افراد سے ہوش کے ناخن لینے کی درخواست ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ کے بندوجب طوفانی جھکڑ چل رہے ہوں تو باہر اڑتے غبار اور کچرے کے لیے گھروں کے دروازے کھولے نہیں بند کیے جاتے ہیں سخت موسم سے نمٹنے کے لیے غذا ماحول دوا سبھی کا بند و بست ضروری ہے -ہم دوسرے کلچر کومن و عن نہیں اپنا سکتے -آپ کے دل میں بے شک ذرا بھی کھوٹ نہ ہو لیکن سوشل میڈیا پر تصاویرسے لے کر ——ازواج کا کھلے عام اظہار محبت ؟ کیا اس کی ہمیں اجازت ہے؟ہرگز بھی نہیں یہ انتہائی ناپسندیدہ ہے کہ یہودونصاری کی طرح کھلے عام باہم محبت کی نمائش کی جاۓ ،جو دین آپ کی یہ تربیت کرتا ہے کہ غریب پڑوسی کو آپ کے گھر کے کھانوں کی خشبو سے سے اذیت نہ پہنچے آپ آے دن دعوتوں کی تصاویر لگا کر انجانے میں کسی کے گھر فساد کا باعث بن رہے ہیں کہ بیوی کو شکوہ کہ میاں اسطرح نہ تو کماتا ہے نہ گھماتا ہے نہ محبت جتاتا ہے اور شوہر کے لیے تو مثل مشہور ہے کہ اسے اولاد اپنی اور بیوی دوسرے کی پسند آتی ہے -جسکے پیچھے یقینا نفس اور شیطان ہی ہے لیکن اس آگ کو مزید ہوا دینا اصل میں کسکا ساتھ دینا ہو سکتا ہے ؟
ایک لوگ وہ ہوتے ہیں جن کو اندر ہی اندر غم کھاۓ جاتا ہے کہ انکی محنت یا صلاحیت کی کوئی قدر ہی نہیں کرتا خود پسندی کا شکار تعریف و توصیف کی طلب –یہ سیدھی سیدھی اقبال کی مکھی کی خوشامد پسند طبعیت اور مکڑے کے مکر کی داستان ہے -جسکا لب لباب یہ ہے کہ نامحرم کے تو سلام کا جواب بھی دینا واجب نہیں تو بس جب سلام تک سے پرہیز ہے تو فضول طویل اور بے مقصد کلام کا کیا سوال ؟
اور ایک اور قسم کے لوگوں کو کچھ نہیں کرنا سواۓ اسکے کہ وہ ‘الله کو دھوکہ” دینے والوں کا حال قران کے شروع میں -درمیان میں -آخر میں جہاں سے چاہیں پڑھ لیں کہ اللہ تعالیٰ کیسے ڈھیل دیتا ہے،کس قدر نفرت فرماتا ہےبظاہر مسلمان بن کےخفیہ طور پر دین کے مخالف کاموں کو رغبت کے ساتھ کرنے پر ،یقینا الله کریم ہے اور تواب بھی کہ سچی توبہ کرنے والوں کو معاف فرما دیتا ہے –لیکن یہ جو تاکید ہے ناں کہ خبردار زنا کے پاس بھی نہ پھٹکنا اس سے متعلق ضرور جانیے کہ نامحرم سے کیے گۓ ایک ایک وعدے دعوے وغیرہ وغیرہ پر کس کس قدر عذاب کی وعیدیں ہیں بہت ہی خوف کا مقام ہے کہ الله تعالیٰ توبہ کو کھیل بنا لینے والوں کے دل پر مہر لگا دیتا ہے پھر انکو مرتے دم تک توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی خاتمہ ایمان پر نہیں ہو پاتا –الله تعالیٰ ہمارے گھروں اور معاشرے کو ہر طرح کے شر سے بچاۓ -اولاد و ازواج کو آنکھوں کی ٹھنڈک بناۓ -وقت رہتے سچی توبہ کی توفیق عطا فرماۓ (آمین)