ابو مطیع اللہ
★حدیث پاک میں آتا ہے ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللّٰه تعالٰی عنه کے سامنے ایک باپ اپنے بیٹے کو لے آیا۔ بیٹا جوانی کی عمر میں تھا مگر وہ ماں باپ کا نافرمان بیٹا تھا اس نے آکر حضرت عمر رضی اللّٰه تعالٰی عنه کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کیا کہ یہ میرا بیٹا ہے مگر میری کوئی بات نہیں مانتا۔ نافرمان بن گیا ہے۔ آپ اسے سزا دیں یا سمجھائیں۔ حضرت عمر رضی اللّٰه تعالٰی عنه نے جب باپ کی یہ بات سنی تو بیٹے کو بلا کر پوچھا کہ بیٹے بتاؤ کہ تم اپنے باپ کی نافرمانی کیوں کرتے ہو تو اس بیٹے نے آگے سے پوچھا کہ امیر المومنین کیا والدین کے ہی اولاد پر حق ہوتے ہیں یا کوئی اولاد کا بھی ماں باپ پر کوئی حق ہوتا ہے اس نے کہا کہ میرے باپ نے میرا کوئی حق ادا نہیں کیا سب سے پہلے اس نے جو ماں چنی وہ ایک باندی تھی جس کے پاس کوئی علم نہیں تھا۔ نہ اس کے اخلاق ایسے نہ علم ایسا اس نے اس کو اپنایا اور اس کے ذریعے سے میری ولادت ہوگئی تو میرے باپ نے میرا نام جُعل رکھا جعل کے لفظی مطلب گندگی کا کیڑا ہوتا ہے۔ یہ بھی کوئی رکھنے والا نام تھا۔ جو میرے ماں باپ نے رکھا۔ پھر ماں کے پاس چونکہ دین کا علم نہیں تھا اس نے مجھے کوئی دین کی بات نہیں سکھائی اور میں بڑا ہو کر جوان ہوگیا۔ اب میں نہ فرمانی نہیں کرونگا تو اور کیا کروں گا۔ حضرت عمرtنے جب یہ سنا تو فرمایا کہ بیٹے سے زیادہ تو ماں باپ نے اس کے حقوق کو پامال کیا۔ اس لئے اب یہ بیٹے سے کوئی مطالبہ نہیں کر سکتے۔ آپ نے مقدمے کو خا رج کر دیا۔
*والدین کی اولین ذمہ داری*
ماں باپ کو چاہئے کہ وہ اولاد کو دین سکھائیں تاکہ بچے بڑے ہو کر ماں باپ کے بھی فرمانبردار بنیں اور اللہ تعالیٰ کے بھی فرمانبردار بنیں۔ شروع سے بچے کو نیکی سکھانا یہ ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے
ان میں ایک نقطہ یہ بھی ذہن میں رکھ لیں کہ ماں کو چاہئے کہ جب دینی شخصیات کا نام آئے علماء کا نام اولیاء کرام کانام ‘ مشائخ کا نام ‘ انبیاء کا نام‘ صحابہ رضی اللہ عنھم کا نام‘ جب ایسی شخصیتوں کے نام آئیں تو ماں کو چاہئے کہ بڑے ادب کے ساتھ بچے کے سامنے نام لے۔ جب ماں دینی شخصیتوں کا نام بڑے ادب کے ساتھ بچے کے سامنے لے گی تو بچے کو پیغام ملے گا کہ بیٹا تم بھی ایسا بننا۔ تمہیں بھی عزت ملے گی چنانچہ جب آپ اس طرح سے ان کے سامنے اچھا نام لیں گے تو بچہ عالم‘ حافظ‘ قاری بننے کی کوشش کرے گا نیک بننے کی کوشش کرے گا۔ نیک بندوں کے احوال اور واقعات اس کو سنائیں اور بچوں کو ان کا تعارف کروائیں۔ جب آپ تعارف کروائیں گی تو بچے کے پاس علم کا ذخیرہ آجائے گا کہ میں نے بھی ایسے بننا ہے عام طور پر مائیں اپنے بچوں کو اس قسم کے واقعات نہیں سناتی بلکہ کبھی سنانا بھی ہے تو کسی نے مرغے کی کہانی سنائی کسی نے بلی کی کہانی سنائی اور کسی نے چڑیا کی کہانی سنائی بڑی خوش ہوتی ہیں کہ میرا بچہ مرغے کی کہانی سن کر سو جاتا ہے ان کو جنت کی باتیں سنائیں تو اس سے بچے کے اندر نیکی کا شوق آتا ہے۔
ابو مطیع اللہ