بھولا محلے کا خاکروب تھا اور مزاحیہ بھی تھا مگر بھولے کی ایک خاصیت تھی کہ اس کے مزاح میں کبھی کسی کی بے عزتی نہیں ہوٸی ۔ اپنے مزاح کی وجہ سے لوگ اس سے سلام بھی لیتے حال احوال پوچھ کر ایک دو باتیں بھی کرتے مگر بھولا کبھی کبھی اپنے پیشے پر طنز کرنے والوں کی وجہ سے دل ہار جاتا ۔ ایک دن محلے کے ایک شریر آدمی نے اپنے چند دوستوں کے درمیان بیٹھے ہوۓ بھولے پر طنز کر دیا ۔سنا بھولے تیرا یہ گند آج کل کتنی قیمت کا بکتا ہے ۔ بھولا یوں تو ایسے طنز کے تیر خاموشی سے برداشت کر لیتا مگر اس بار بھولے کا جواب سب کو حیران کر گیا۔ بھولے نے بڑی معصومیت سے کہا صاب جی چکھ کے ویکھ لو آپ ہی اندازا ہو جاۓ گا کیسی کوالٹی ہے۔
بھولے کی اس بات سے ان صاحب کے سب دوست مسکرا دٸیے اور اپنے دوست کو کہنے لگے جا اوۓ بھولے نے تے تیرے علاج کر دیتا ۔یہ چھوٹا سا واقعہ ہمیں مزاح اور مذاق میں واضح فرق سمجھا دیتا ہے انسان کو اپنی اوقات کے مطابق رہنا چاہیے اسلام چونکہ مکمل ضابطہ حیات ہے مکمل طور پر مذاق کی ممانعت ہے اور مزاح کی اجأزت خوبصورت اصولوں کے ساتھ ہے ۔پہلے یہ سمجھ لیں کہ مذاق کا معنی ہے پھاڑنا
جس کے لیے ہم اپنی عمومی زبان میں دل توڑنا کہتے ہیں
آپ ﷺ کی گفتگو (قول فعل ) سے کبھی کوٸی رنجیدہ خاطر نہیں ہوا یعنی دل نہیں دکھا
ویسے بھی رحمة للعالمین کی شان مبارکہ ہے کہ آپ خوشیاں تقسیم فرماتے اور لوگوں کے غم دور فرماتے ۔ ایک مومن کو بھی ایسا ہی ہونا چاہیے ۔
ہمارے ہاں جو مذاق کیا جاتا ہے جس سے عمومی طور پر دوسرے انسان کوشرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے
مزاح وہ شستہ شاٸستہ قول اور فعل ہے جس سے ہر ایک کا دل خوشی سے دوچار ہو سننے والے اور جس کے بارے کہی جا رہی ہے کوٸی رنجیدہ خاطر نہ ہو۔ اب ذرا قرآن مجید سے اس سلسلہ میں رہنماٸی لی جاۓ
جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا بے شک اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے انہوں نے کہا کیا آپ ہمارے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔
قرآن کے مطابق مذاق کرنا جاہلوں کا کام ھے۔ البتہ مزاح اور چیز ھے۔ مزاح کا مطلب کوئی نقطہ افروز بات کرنا ۔ کہ سننے والے کو سوچنے کے بعد اس کی سمجھ آئے۔۔یا بات کرنے والے کے سمجھانے پر اس کو سمجھ آئے ۔
جناب انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کے لیے اونٹ مانگا، تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’ہاں! میں تم کو سواری کے لیے اونٹ کا بچہ دوں گا، اس شخص نے عرض کیا کہ میں اونٹنی کے بچےکا کیا کروں گا؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: اونٹ بھی تو اونٹنی ہی کے بچے ہوتے ہیں‘‘۔ آپ ﷺ کا یہ مزاح سب کے چہرے پر مسکراہٹ لے آیا اور کوٸی پریشان بھی نہیں ہوا ۔
ہمارے ہاں سب سے بری روایت ہے کہ کچھ دوست مذاق مذاق میں کسی کی توہین کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں سوری یار مذاق کیا ہے ایسے ناصرف ایک شخصیت کا وقار مجروح ہوتا ہے بلکہ تعلق میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو جاتا ہے ۔ یہی وہ جملے ہوتے ہیں جو اندر ہی اندر فاصلے پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں اور اخلاص میں کمی واقع ہوتے ہوتے تعلق اختتام پذیز ہو جاتے ہیں۔ مزاح سے تعلق پھلتے پھولتے ہیں مسکراہٹیں بکھرتی ہیں اور ماحول خوشگوار رہتا ہے اخلاص الفت محبت اور قربت میں مثبت اضافہ ہوتا ہے ۔دوستو ں اور پیار کرنے والوں میں اضافہ ہوتا ہے ہاں اگر آپ پھر بھی خود کو تیز زبان کا سمجھتے ہیں تو یاد رکھیں کہیں نہ کہیں بھولا ضرور موجود ہے جو اچانک کچھ ایسا بولے گا جو آپ کے لیے طنعہ بن جاۓ گا اور آپ اپنے دوستوں کے اس جملے سے چڑ کھاتے کھاتے دوست کھو دیں گے ۔
اگر آپ بہترین بول نہیں بول سکتے تو خاموشی دنیا کی سب سے بہترین زبان ہے۔ کچھ بیمار ذہنیت کے لوگ ہمیشہ دوسروں پر طنز کے تیر چلاتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے بھی علاج ہے آپ ان کو کبھی رسپانس نہ کریں آپ کی خاموشی ہی بہت بڑا ہے۔ ویسے بھی جو ذہنی بیمار ہوں ان سے الجھنا اس پتھر کی مانند ہے جو کیچڑ میں مارا جاۓ تو چھینٹے خود پر بھی گرتے ہیں ۔