درویش جنگل میں عبادت میں مشغول تھے کہ پتہ چلا چوہا تھر تھر کانپ رہا ہے.
انہوں نے پوچھا کیا بات ہے میاں ؟
چوہا بولا میری کوئی زندگی ہے، جب دیکھو بلی کھانے کو دوڑتی ہے!
درویش کو دکھ ہوا, فرمایا اگر تجھے بلی بنا دوں تو؟
وہ بولا زندگی بھر مشکور رہوں گا.
کئی روز بعد درویش نے “خوفزدہ بلی” کو دیکھا.
پوچھا کیا ہوا؟ بلی بولی آپ نے چوہے سے بلی بنا تو دیا. مگراب کتے پیچھے پڑ گیے ہیں.
.درویش نے کہا کیا چاہتا ہے تو؟ بلی نے عرض کی حضرت کتے سے طاقتور جانور بنا کے جان بچا لیجیے. درویش نے کچھ سوچا, اس پر پھونک ماری تو بلی لومڑی میں تبدیل ہو گئی
چوہا میاں لومڑی میں تبدیل ہو کر روپوش ہو گئی.
چند مہینے بعد لومڑی درویش کے آگے پسینے سے شرابور کھڑی تھی.
لومڑی نے دہائی دی آپ کا آخری دیدار کرنے آیا ہوں،جنگل کا
بادشاہ دشمن بن چکا، موت کا پروانہ جاری ہو چکا ہے.
درویش نے کچھ سوچا, اس پر پھونک ماری تو
تھوڑی دیر بعد چوہا حیران رہ گیا.درویش اسے شیر میں تبدیل کر چکا تھا
چوہے سے طاقت ور ترین شیر بن جانے پر اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔
درویش نے کہا جا تو آزاد ہے.
شیر نے درویش کے ہاتھ پاؤں چومے, راستے میں جنگل کے پرانے باشاہ کو شکست دی.
تمام جانوروں نے بلا مقابلہ نیا بادشاہ تسلیم کر کے سر جھکا دیا.
چوہا تھا, جنگل کا بادشاہ بن گیا
چوہا شیر بنا،حکومت شروع کی. خوشامدی ادب سے بیٹھنے لگے تو شیر کو سرور آنے لگا۔
وہ اسمبلی, کچن کابینہ بنا بیٹھا.
وہ کبھی کبھار جنگل کے عوامی جانوروں کو دیدار کراتا۔
وقت اچھا گزر گیا.
ایک دن بادشاہ کے کانوں میں گدھے کی گفتگو پڑی کہ پرانا بادشاہ دیدار نہ کراتا تھا، یہ کون ہے ؟
چوہے نے گدھے کی بات سنی تو ڈر گیا کہ اس کے چوہے سے شیر بننے کا راز صرف درویش کو معلوم ہے اور اگر اس نے کسی کو بتا دیا تو؟
یہ سوچ کر وہ گبھرا گیا.
اس نے درویش کی کٹیا کا رخ کیا جسے وہ عیش میں بھول گیا تھا۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اسکی اصلیت کو جان سکے ۔۔
برسوں حکومت کرنے والا شیر وسوسے لئے درویش کے پاس پہنچا.
درویش نے پوچھا میاں کیسے آئے؟
اس نے کہا حضرت پاؤں چومنے. درویش ہنسا. اس سے پہلے کہ چوہا درویش تک پہنچتا، وہ چوہے میں تبدیل ہو گیا.