.
میری شادی ایک امیر گھرانے میں ہوئی، میرے سسر دو بڑی ٹیکسٹائل ملز کے مالک تھے، دولت کی ریل پیل تھی، دنیا کی ہر آسائش میسر تھی۔
میرےشوہر ان کی اکلوتی اولاد تھے۔ میں اپنی قسمت پر نازاں تھی۔ کتنی لڑکیاں ہیں جن کی ایسے خواہشات پوری ہوتی ہیں…
اس گھر میں ہم چار لوگ تھے؛ایک سسر، ایک میرے شوہر، ایک میں اور۔۔۔۔۔۔
جی ہاں! ایک میرے سسر کی دور دراز کی کافی عمر رسیدہ خاتون تھیں۔ میرے شوہر کا کہنا تھا کہ ان کی اولاد نے ان کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ دیا اور پھر میرے سسر انھیں گھر لے آئے۔ عمر ستر اسی کے لگ بھگ تھی۔بخاموش فطرت تھیں۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔
بس! مجھے ان سے چِڑ سی تھی، مجھے ایسے معلوم ہوتا تھا کہ میری راجدھانی میں وہ ایک بوجھ ہیں، میرے سپنوں کے محل میں بدنما داغ ہیں۔
میں دبے دبے لفظوں میں اپنے شوہر سے ان کو گھر سے نکالنے کا کہتی، لیکن یہ تو میرے سسر کا فیصلہ تھا۔ میرے شوہر کا کہنا تھا کہ ان کے گھر میں دولت کی ریل پیل اور برکات، اماں کو پناہ دینے کے بعد شروع ہوئیں اور ابو کبھی بھی یہ بات نہیں مانیں گے۔
پھر اچانک میرے سسر کا ہارٹ اٹیک سے انتقال ہوگیا۔ میرے شوہر تمام دولت کے تن تنہا وارث بن گئے اور میں اس عظیم وراثت کی ملکۂ عالیہ بن گئی۔میرے ناز دیکھنے والے تھے۔ زمین پر تو میرے پاؤں ہی نہیں پڑتے تھے۔
کچھ دن بعد جب خمار کم ہوا تو پھر میری سوئی اماں پر اڑ گئی۔روز شوہر کے کان بھرتی جو رفتہ رفتہ جھگڑوں میں تبدیل ہوگئے اور ایک دن شوہر نے بھی میرے آگے ہتھیار ڈالدیے۔
میں نے اگلے دن صبح اماں کو صاف صاف جواب دے دیا، وہ خاموش تھیں لیکن آنکھوں میں آنسو تھے۔ پھر وہ کچھ بتائے بغیر گھر چھوڑ کر چلی گئیں۔
میرا اور اُ ن کا کوئی مقابلہ نہ تھا لیکن میں یہ یکطرفہ مقابلہ جیت چکی تھی اور فتح کے نشہ سے سرشار تھی۔
ہفتہ ہی گزرا تو میرے شوہر انتہائی پریشان گھر آئے۔ معلوم یہ ہوا کہ میرے سسر پر کافی بینک قرضہ تھا، اس کے علاوہ لوگوں کا ادھار بھی تھا۔ چائنہ کا ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مقابلے میں آنے سے کاروبار بھی کافی متاثر تھا۔
جلد ہی ایک فیکٹری بیچنی پڑ گئی لیکن میرا دل اب بھی مطمئن تھا کہ کاروبار میں اتار چڑھاؤ تو آتے رہتے ہیں۔ مہینہ ہی گزرا تھا کہ دوسری فیکٹری بھی بیچنی پڑ گئی۔ بینک نے اپنے قرضہ کے بدلہ مکان فروخت کروا دیا اور ہم ایک چھوٹے کرائے کے مکان میں منتقل ہوگئے۔
میرے شوہر نے بچی کھچی آمدنی سے ایک چھوٹا سپننگ یونٹ خرید لیا اور اس طرح زندگی کا پہیہ چلنا شروع ہوا۔ میری سب شاہانہ عمارت زمین بوس ہوگئی۔
مجھے احساسِ جرم نے گھیر لیا، میں نے ایک بے بس، لاچار اور ضعیف عورت کو بے گھر کیا، میرا اپنا سپنوں کا محل بکھر کر رہ گیا۔ اور یہ زوال اماں کے جانے کے بعد ہی شروع ہوا۔مجھے اپنے سسر کی بات درست معلوم ہونے لگی۔ جس طرح عروج اماں کے آنے سے شروع ہوا تھا. اسی طرح اماں کے جانے سے رخصت ہوگیا تھا..۔
*ہم کو سمجھنا چاہے گھروں میں بزرگوں سے ہی برکت ہوتی ھے*
*بزرگوں کی دعا یں ہی ہوتیں ہیں جن کی وجہ سے گھر میں خیر ور برکت ہوتی ھے*
*اللہ پاک بزرگوں کا سایہ ھمیشہ رکھے، آمین*…
مولوی ابو مطیع اللہ *