*اللہ کی رضامندی کے لئے خرچ کرنے والوں کی مثال*
*وَمَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاۤءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ تَثْبِيْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۢ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَيْنِۚ فَاِنْ لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّۗ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ (البقرہ2: 265)*
*ترجمہ:*
ان لوگوں کی مثال ہے جو اپنا مال اللہ تعالٰی کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو اور زوردار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دوگنا لاوے اور اگر اس پر بارش نہ بھی پڑے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
*تفسیر و تشریح:*
۱)۔ احسن البیان:۔ یہ ان اہل ایمان کی مثال ہے جو اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتے ہیں ان کا خرچ کیا ہوا مال اس باغ کی مانند ہے جو پر فضا اور بلند چوٹی پر ہو کہ اگر زوردار بارش ہو تو اپنا پھل دوگنا دے ورنہ ہلکی سی پھوار اور شبنم بھی اسکو کافی ہو جاتی ہے اس طرح ان کے نفقات بھی چاہے کم ہو یا زیادہ عند اللہ کئی کئی گنا اجر و ثواب کے باعث ہونگے۔ جَنْۃُ اس زمین کو کہتے ہیں جس میں اتنی کثرت سے درخت ہوں جو زمین کو ڈھانک لیں یا وہ باغ جس کے چاروں طرف باڑ ہو اور باڑ کی وجہ سے باغ نظروں سے پوشیدہ ہو۔ یہ جن سے ماخوذ ہے جن اس مخلوق کا نام ہے جو نظر نہیں آتی پیٹ کے بچے کو جنین کہا جاتا ہے کہ وہ بھی نظر نہیں آتا دیوانگی کو جنون سے تعبیر کرتے ہیں کہ اس میں بھی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے اور جنت کو اس لئے جنت کہتے ہیں کہ وہ نظروں سے مستور ہے۔ رَبْوَۃَ اونچی زمین کو کہتے ہیں۔وَابِلُ تیز بارش۔
۲)۔ تفہیم القرآن:۔ زور کی بارش“ سے مراد وہ خیرات ہے ، جو انتہائی جذبہ خیر اور کمال درجے کی نیک نیتی کے ساتھ کی جائے ۔ اور ایک ہلکی پھوار سے مراد ایسی خیرات ہے، جس کے اندر جذبہ خیر کی شدت نہ ہو ۔
۳)۔ بیان القرآن:۔جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں کہ قدرتی باغ کا یہی تصور ہوتا تھا کہ ذرا اونچائی پر واقع ہے ‘ اس کے دامن میں کوئی ندی بہہ رہی ہے جس سے خود بخود آب پاشی ہو رہی ہے اور وہ سیراب ہو رہا ہے۔- [ قادیانیوں نے اسی لفظ ربوہ کے نام پر پاکستان میں اپنا شہر بنایا۔ ]- (اَصَابَہَا وَابِلٌ) (فَاٰتَتْ اُکُلَہَا ضِعْفَیْنِ ج ) (فَاِنْ لَّمْ یُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ط) (وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ )- لہٰذا تم دروں بینی کرتے رہا کرو کہ تم جو یہ مال خرچ کر رہے ہو واقعتا خلوص دل اور اخلاص نیت کے ساتھ اللہ ہی کے لیے کر رہے ہو۔ کہیں غیر شعوری طور پر تمہارا کوئی اور جذبہ اس میں شامل نہ ہوجائے۔ چناچہ اپنے گریبانوں میں جھانکتے رہو۔
۴)۔ تفسیر ابنِ کثیر: سدابہار عمل:۔یہ مثال مومنوں کے صدقات کی دی جن کی نیتیں اللہ کو خوش کرنے کی ہوتی ہیں اور جزائے خیر ملنے کا بھی پورا یقین ہوتا ہے، جیسے حدیث میں ہے جس شخص نے رمضان کے روزے ایمانداری کے ساتھ ثواب ملنے کے یقین پر رکھے۔۔ ربوہ کہتے ہیں اونچی زمین کو جہاں نہریں چلتی ہیں اس لفظ کو بربوۃ اور بربوۃ بھی پڑھا گیا ہے۔ وابل کے معنی سخت بارش کے ہیں، وہ دگنا پھل لاتی ہے یعنی بہ نسبت دوسرے باغوں کی زمین کے، یہ باغ ایسا ہے اور ایسی جگہ واقع ہے کہ بالفرض بارش نہ بھی ہو تاہم صرف شبنم سے ہی پھلتا پھولتا ہے یہ ناممکن ہے کہ موسم خالی جائے، اسی طرح ایمانداروں کے اعمال کبھی بھی بےاجر نہیں رہتے۔ وہ ضرور بدلہ دلواتے ہیں، ہاں اس جزا میں فرق ہوتا ہے جو ہر ایماندار کے خلوص اور اخلاص اور نیک کام کی اہمیت کے اعتبار سے بڑھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر اپنے بندوں میں سے کسی بندے کا کوئی عمل مخفی اور پوشیدہ نہیں۔