جانتے ہو صاحب…
ہم اپنے ماں باپ پہ سب سے بڑا ظلم کیا کرتے ہیں۔..؟
ہم ان کے سامنے”بڑے” بن جاتے ہیں …
“سیانے” ہو جاتے ہیں …
اپنے تحت بڑے “پارسا نیک اور پرہیزگار” بن جاتے ہیں …
وہی ماں باپ جنہوں نے ہمیں سبق پڑھایا ہوتا ہے ۔.
انھیں “سبق” پڑھانے لگتے ہیں …
ابا جی یہ نہ کرو یہ غلط ہے ۔.
اماں جی یہ آپ نے کیا کیا ..
آپ کو نہی پتا ایسے نہیں کرتے …
ابا جی آپ یہاں کیوں گئے۔.
اماں جی پھر گڑبڑ کر دی آپ نے ..
سارے کام خراب کر دیتی ہیں آپ ..
اب کیسے سمجھاؤں آپ کو …
جانتے ہو صاحب …
ہمارا یہ “بڑا پن یہ سیانا پن” ہمارے اندر کے “احساس” کو مار دیتا ہے …
وو احساس جس سے ہم یہ محسوس کر سکیں …
کہ ہمارے ماں باپ اب بلکل بچے بن گئے ہیں۔..
وہ عمر کے ساتھ ساتھ بے شمار ذہنی گنجلگوں سے آزاد ہوتے جا رہے ہیں …
چھوٹی سے خوشی …
تھوڑا سا پیار…
ہلکی سی مسکراہٹ …
انھیں نہال کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے …
انھیں “اختیار” سے محروم نہ کرو صاحب ….
“سننے” کا اختیار …
“کہنے” کا اختیار …
“ڈانٹنے” کا اختیار …
“پیار” کرنے کا اختیار …
یہی سب انکی خوشی ہے ..
چھوٹی سی دنیا ہے …
ہمارے تلخ رویوں سے وہ اور کچھ سمجھیں یا نہ سمجھیں …
یہ ضرور سمجھ جاتے ہیں ک اب وقت انکا نہیں رہا …
وو اپنے ہی خول میں قید ہونے لگتے ہیں …
اور بلآخر رنگ برنگی ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہونے لگتے ہیں …
اس لئے صاحب …
اگر ماں باپ کو خوش رکھنا ہے ..
تو ان کے سامنے زیادہ “سیانے” نہ بنیں …
“بچے” بن کے رہیں ..
تا کہ آپ خود بھی “بچے” رہیں …