ایک نوجوان بزنس مینیجر اپنی برانڈ
نیو بی ایم ڈبلیو میں دفتر سے ڈی ایچ اے میں واقع گھر جاتے ہوئے ایک پسماندہ علاقے
سے گزرا جو مضافات میں ہی واقع تھا. اچانک اس نے ایک چھوٹے بچے کو بھاگ کر سڑک کی
طرف آتے دیکھا تو گاڑی آہستہ کردی. پھر اس نے بچے کو کوئی چیز اچھالتے دیکھا. ٹھک
کی آواز کے ساتھ ایک اینٹ اس کی نئی کار کے دروازے پر لگی تھی. اس نے فوراً بریک
لگائی اور گاڑی سے باہر نکل کر دروازہ دیکھا جس پر کافی بڑا چب پڑ چکا تھا.
اس نے غصے سے ابلتے ہوئے بھاگ کر اینٹ
مارنے والے بچے کو پکڑا اور زور سے جھنجھوڑا. “اندھے ہوگئے ہو، پاگل کی
اولاد؟ تمہارا باپ اس کے پیسے بھرے گا؟” وہ زور سے دھاڑا۔
میلی کچیلی شرٹ پہنے بچے کے چہرے پر
ندامت اور بے چارگی کے ملے جلے تاثرات تھے.
“سائیں، مجھے کچھ نہیں پتہ میں
اور کیا کروں؟ میں ہاتھ اٹھا کر بھاگتا رہا مگر کسی نے گل نئیں سنی.” اس نے
ٹوٹی پھوٹی اردو میں کچھ کہا. اچانک اس کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے اور اس سڑک کے
ایک نشیبی علاقے کی طرف اشارہ کرکے کہا “ادھر میرا ابا گرا پڑا ہے. بہت بھاری
ہے. مجھ سے آٹھ نہیں رہا تھا، میں کیا کرتا سائیں؟”.
بزنس ایگزیکٹو کے چہرے پر حیرانی سی
در آئی اور وہ بچے کے ساتھ ساتھ نشیبی علاقے کی طرف بڑھا جہاں اس نے ایک عجیب و
غریب منظر دیکھا. ایک معذور شخص اوندھے منہ مٹی پر پڑا ہوا تھا اور ساتھ ہی ایک
ویل چیئر گری پڑی تھی. دکھائی دے رہا تھا کہ شاید وزن کے باعث بچے سے ویل چیئر
سنبھالی نہیں جاسکی تھی. ساتھ ہی پکے ہوئے چاول گرے ہوئے تھے جو شاید باپ بیٹا
کہیں سے مانگ کے لائے تھے.
“سائیں، مہربانی کرو. میرے ابے
کو اٹھا کر کرسی پر بٹھا دو.” اب میلی شرٹ والا بچہ باقاعدہ ہچکیاں لے رہا
تھا.
نوجوان ایگزیکٹو کے گلے میں جیسے
پھندہ سا لگ گیاہو۔ اسے سارا معاملہ سمجھ میں آگیا تھا. اسے اپنے غصے پر اب ندامت
محسوس ہورہی تھی. اس نے اپنے سوٹ کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھ کر پوری طاقت لگا کر
کراہتے ہوئے معذور شخص کو اٹھایا اور کسی طرح ویل چیئر پر بٹھا دیا. بچے کے باپ کی
حالت غیر تھی اور چہرہ خراشوں سے بھرا پڑا تھا.
پھر وہ بھاگ کر اپنی گاڑی کی طرف گیا
اور بٹوے میں سے دس ہزار نکالے اور کپکپاتے ہاتھوں سے معذور کی جیب میں ڈال دیئے.
پھر اس نے ٹشو پیپر سے اس کی خراشوں کو صاف کیا اور ویل چیئر کو دھکیل کر اوپر لے
آیا. بچہ ممنونیت کے آنسوؤں سے اسے دیکھتا رہا اور پھر چئیر پر بیٹھے اپنے باپ کو
لے کر اپنی جھگی کی طرف چل پڑا. اس کا باپ مسلسل آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے ہوئے
نوجوان کو دعائیں دے رہا تھا.
نوجوان ایگزیکٹو نے بعد میں ایک
خیراتی ادارے کے تعاون سے جھگی میں رہنے والوں کے لیے ایک جھگی سکول کھول دیا اور
آنے والے سالوں میں وہ بچہ بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ پڑھ لکھ کر زندگی کی دوڑ میں
شامل ہوگیا.
وہ بی ایم ڈبلیو کار اس کے پاس پانچ
سال مزید رہی، تاہم اس نے ڈینٹ والا دروازہ مرمت نہیں کرایا. کبھی کوئی اس سے
پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا “زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی
کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے”. سننے والا اس کی بات سن کر اور اس کی آنکھوں
میں نمی دیکھ کر قدرے حیران ہوتا اور پھر سمجھتے، نہ سمجھتے ہوئے سر ہلا
دیتا.
اوپر والا کبھی ہمارے کانوں میں
سرگوشیاں کرتا ہے اور کبھی ہمارے دل سے باتیں کرتا ہے. جب ہم اس کی بات سننے سے
انکار کردیتے ہیں تو وہ کبھی کبھار ہمارے اوپر ایک اینٹ اچھال دیتا ہے. پھر وہ بات
ہمیں سننا پڑتی ہے. جہاں ہم اپنے خاندان، بیوی بچوں کی خوشیوں کے لیے بھاگے جارہے
ہیں، وہیں ہمارے آس پاس بہت سی گونگی چیخیں اور سرگوشیاں بھی بکھری پڑی ہیں. کیا
ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے ارد گرد کی سرگوشیاں سن لیں تاکہ ہم پر اینٹ اچھالنے کی
نوبت نہ آسکے. آمین
(عارف انیس)
(مرکزی خیال ماخوذ. مصنف کی زیر تعمیر
کتاب “صبح بخیر زندگی” سے اقتباس)