ایک بادشاہ نے کسی شہری کی کسی بات پر خوش ہو کر اسے یہ اختیار دیا کہ وہ سورج غروب ھونے تک جتنی زمین کا دائرہ مکمل کر لے گا، وہ زمین اس کو الاٹ کر دی جائے گی۔ اور اگر وہ دائرہ مکمل نہ کر سکا اور سورج غروب ھو گیا تو اسے کچھ نہیں ملے گا۔
یہ سن کر وہ شخص چلا پڑا ۔ چلتے چلتے ظہر ھو گئی تو اسے خیال آیا کہ اب واپسی کا چکر شروع کر دینا چاھئے ،مگر پھر لالچ نے غلبہ پا لیا اور سوچا کہ تھوڑا سا اور آگے سے چکر کاٹ لوں،، پھر واپسی کا خیال آیا تو سامنے کے خوبصورت پہاڑ کو دیکھ کر اس نے سوچا اس کو بھی اپنی جاگیر میں شامل کر لینا چاھئے۔
الغرض واپسی کا سفر کافی دیر سے شروع کیا ۔ اب واپسی میں یوں لگتا تھا جیسے سورج نے اس کے ساتھ مسابقت شروع کر دی ھے۔ وہ جتنا تیز چلتا پتہ چلتا سورج بھی اُتنا جلدی ڈھل رھا ھے۔ عصر کے بعد تو سورج ڈھلنے کی بجائے لگتا تھا پِگلنا شروع ھو گیا ھے۔
وہ شخص دوڑنا شروع ھو گیا کیونکہ اسے سب کچھ ہاتھ سے جاتا نطر آ رھا تھا۔ اب وہ اپنی لالچ کو کوس رہا تھا، مگر بہت دیر ھو چکی تھی۔ دوڑتے دوڑتے اس کا سینہ درد سے پھٹا جا رھا تھا،مگر وہ تھا کہ بس دوڑے جا رھا تھا –
آخر سورج غروب ہوا تو وہ شخص اس طرح گرا کہ اس کا سر اس کے اسٹارٹنگ پوائنٹ کو چھو رہا تھا اور پاؤں واپسی کے دائرے کو مکمل کر رھے تھے، یوں اس کی لاش نے دائرہ مکمل کر دیا-
جس جگہ وہ گرا تھا اسی جگہ اس کی قبر بنائی گئی اور قبر پر کتبہ لگایا گیا، جس پر لکھا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
“اس شخص کی ضرورت بس اتنی ساری جگہ تھی جتنی جگہ اس کی قبر ھے”
اللہ پاک نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ھے ۔ ۔ والعصر ،،ان الانسان لفی خسر،،
ہمارے دائرے بہت بڑے ھوگئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “انا للہ و انا الیہ راجعون”
چلئے واپسی کی سوچ سوچتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ رب تک یہ دائرہ مکمل ھو گیا تو ، جنت و نعیم ، اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
راستے میں کہیں شام ھو گئی تو . . . . . . . .خسر الدنیا والآخرہ