back to top

 

فرانس کے مشہور گاؤں ” کولمبے لیڈو زگ لیزا” کے ایک خوبصورت مکان میں بیٹھا چارلس ڈیگال اقتدار کی راہداریوں میں گزرے سنہرے وقت کو کاغز کے پنوں پر سمیٹ رہا تھا، شاید وہ اسے جامع کر کے ایک خودنوشت تصنیف کرنا چاہتا تھا۔ یہ انیس سو سینتالیس کا زمانہ تھا۔

فوجی سکول کا پڑھا ہوا چارلس ڈیگال فطری طور پر جرمنوں سے نفرت کرتا تھا اور جرمنوں کو اپنے ملک پر قابض سمجھتا تھا۔ دوسری جنگ عظیم نے اسے جنرل بنایا تو فرانس جرمنی کے قبضے میں چلا گیا اور چارلس ڈیگال جلا وطن ہو کر برطانیہ میں جا ٹھہرا۔ مفرور سپاہیوں کو اکٹھا کرتا رہا، حکماء اور سفراء سے مذاکرات کئے گئے۔ بالآخر فرانس آزاد کرا لیا گیا۔ قوم نے اسے ”آزاد فرانس” کا لیڈر مان لیا۔

ڈیگال ہمہ جہتی سے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں لگ گیا۔ نیا آئین تشکیل دیا گیا۔ فنون لطیفہ بحال کئے گئے، صنعتوں کے بند تالوں کو کھولا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے خوشبوؤں کے مرکز میں بہار آ گئی۔ سماج اور معیشت نے تسلسل پکڑ لیا۔ لیکن ، ، ، اس سب کے دوران قوم کہیں آزاد فرانس کے حکمران چارلس ڈیگال سے اکتا گئی اور اسے نکال باہر کرنے کے در پہ ہو گئی۔

ڈیگال نے جمہور کی خواہش اور امنگ مقدم رکھی۔ کسی تکرار اور تصادم کو ہوا نہ دی۔ رخت سفر باندھا، صدارتی محل چھوڑا اور اپنے خوبصورت گاؤں ”کولمبے لیڈو زگ لیزا” میں جا کر مقیم ہو گیا۔ دن بھر کھیتی باڑی کرتا، شام کی چائے کے وقت سوچیں مجتمع کرتا اور رات کے کسی پہر خودنوشت کے قرطاس پر بکھیر دیتا۔

سینکڑوں ہمنواؤں، ہزاروں چاہنے والوں ، اور لاکھوں فرانسیسی عوام کو یکسر ترک کر کے ڈیگال نے گوشہ نشینی اختیار کئے رکھی۔ اس نے بولنا چھوڑ دیا تھا، صرف پڑھتا ور لکھتا تھا۔ کوئی متجسس اسکی ذات کے ٹھہرے پانیوں میں مخل ہونے کی کوشش کرتا تو بھی وہ خاموش رہتا۔ لوگ اسکے مکان کے قریب سے گزرتے، دروازے پر لگی اسکے نام کی پلیٹ پر لکھا ”چارلس ڈیگال”پڑھتے، لمحے کو رکتے اور پھر کوچ کر جاتے۔ 1946 سے 1958 تک چارلس ڈیگال نے اسی بنواس میں گزار دئیے۔

فرانس کے مشہور گاؤں ” کولمبے لیڈو زگ لیزا” کے ایک خوبصورت مکان میں معمول کی طرح وہ سو کر اٹھا، ارد گرد بکھری کتابیں سمیٹی تو اسکی سماعت ایک مسلسل اور آہستہ آہستہ آنے والی آواز پر ٹھہر گئی۔ اس نے کان لگائے، اپنی سماعتوں کو آواز کے تعاقب میں دوڑایا اور پھر کھڑکی کا پردہ اٹھا دیا۔ ایک جم غفیر اس چھوٹے سے گاؤں کے کھیت کھلیانوں کے کچے راستوں سے ہوتا اسی کے مکان کی جانب بڑھ رہا تھا۔ کچھ لوگ اسکے دروازے کے باہر اسکے جاگ جانے کے منتظر تھے۔ یہ انیس سو اٹھاون کا زمانہ تھا۔

لوگوں کو بارہ سال بعد چارلس ڈیگال سے کھوئی محبت یاد نہیں آئی تھی۔ انہیں فرانس کے ستم رسیدہ حالات، بنتی بگڑتی حکومتوں اور آئین کی پامالیوں سے تنگی اس چھوٹے مگر خوبصورت گاؤں ” کولمبے لیڈو زگ لیزا”کی راہ پر لے آئی تھی۔ بارہ سال تک خاموش رہنے والے ڈیگال نے انکے چہروں پر دھول کی مانند جمی ستم ظریفی اور محرومیوں کو پڑھ لیا تھا۔ منہ میں سگار سلگائے، وہ مسکرایا اور عوام کے پیچھے پیرس کو چل دیا۔

اسے وزیراعظم بنا دیا گیا، فرانسیسیوں نے اسے ہنگامی اختیارات سونپ دئیے۔ اس نے ایک بار پھر آئین تشکیل دیا، پارلیمانی جمہوریت کو صدارتی نظام سے تبدیل کیا اور اسکی بارہ سالہ خاموشیاں فرانسیسی معاشرے میں انقلاب بن کر چیخنے لگیں۔ کیا معاشرت، کیا معیشت اور کیا سفارتکاری، ڈیگال آگے بڑھتا گیا۔ فرانس کو نیوکلئر پاور بنایا اور دنیا بھر سے تعلقات قائم کئے۔ سرد جنگ میں جب دنیا نیٹو جیسی تنظیم تشکیل دے رہی تھی ڈیگال کے فرانس نے اس میں سب سے زیادہ اور اہم کردار ادا کیا۔ چین سے پوری مغربی دنیا کے تعلقات ختم تھے، ڈیگال نے یورپی دنیا میں پہلا قدم اٹھاتے ہوئے چین کو تسلیم کیا۔

1968

 میں دیگال کی تیسری بار حکومت کیلئے انتخابات ہوئے تو اسکی جماعت نے 487 میں سے 352 سیٹیں جیت کر فتح اپنے نام کی لیکن دس سالوں میں بہت کچھ بدل گیا تھا۔ لوگ ایک بار پھر اکتا گئے تھے۔ اس نے حکومت بنانے کے بعد اپنی مقبولیت جاننے کیلئے سروے کرایا اور یہ جان کر اسے کوئی حیرانی نہ ہوئی کہ لوگوں کو اب اس میں دلچسپی نہ رہی تھی۔ فرانسیسی اسے بوڑھا سمجھنے لگے تھے اسکی پالیسیوں پر آوازیں اٹھا رہے تھے۔ وہ اکثریت سے کامیاب ہوا تھا ۔ ۔ ۔سینیٹ اور بلدیاتی نظام میں اصلاحات چاہتا تھا، ، لیکن ، ، لوگوں نے ریفرنڈم میں اسے مسترد کر دیا۔

اس نے کوئی کارنامے نہ گنوائے، اس نے قوم کو نہیں کہا کہ وہ آزاد فرانس کا موجد ہے۔ وہ نیوکلئر فرانس کا ڈیزائنر ہے۔ وہ جدید فرانس کا آرکیٹیکٹ ہے یا فرانسیسی ترقی کا ضامن ہے۔ اپریل 1969 میں اس نے دوسری خاموشی اختیار کی، استعفٰی دیا اور ریٹائرمنٹ لے لی۔ اور واپس کھیتوں کھلیانوں کی ہریالی میں گھرے اپنے گاؤں ” کولمبے لیڈو زگ لیزا” آ گیا۔ خود نوشت ادھوری تھی۔ ڈیگال اس بار مزید دس سالوں کے کارناموں کا اضافہ کر کے واپس لوٹا تھا اور اس نے تحریر شروع کر دی۔

ڈیگال اسی سال کا ہونے والا تھا۔ نومبر 1970 کو ” کولمبے لیڈو زگ لیزا” کے اسی خوبصورت مکان میں بیٹھا چارلس ڈیگال ٹیلیویژن پر شام سات بجے کی خبریں دیکھ رہا تھا۔ کہ اسکی گردن میں درد ہوا۔ ایمبولینس بلائی گئی لیکن شریان پھٹ جانے کے باعث وہ جانبر نہ ہو سکا۔ اسکی موت کی خبر اٹھارہ گھنٹوں بعد دارالحکومت میں پہنچی۔ اسوقت کے صدر جارج پومپیڈو نے ٹیلیویژن پر اعلان کیا، ”افسوس فرانس بیوہ ہو گئی،،،، چارلس ڈیگال مر گیا” ۔

ایک بار پھر ” کولمبے لیڈو زگ لیزا” کی پکڈنڈیوں پر فرانسیسی عوام کا ہجوم تھا۔ کئی ممالک کے صدور، حکام اور سفراء اسے الوداع کرنے آئے تھے۔ اس چھوٹے مگر خوبصورت مکان کے ایک کمرے کی ٹیبل پر پڑی ڈیگال کی خودنوشت اس جملے کا کلاصہ بن کر مکمل ہو چکی تھی کہ لیڈروں کے کارنامے بیج کی طرح ہوتے ہیں، جیسے کسان بیج بر کر خاموشی سے انتظار کرتا ہے، لیڈر کو بھی خاموش بیٹھ کر نتیجے کا انتطار کرنا چاہیے۔ آّج کا ترقی یافتہ، جدید اور جمہوری فرانس ڈیگال کے بوئے ہوئے بیج کا نتیجہ ہے۔

ایک آدمی کو اعتراض کرنے کی بہت عادت تھی

ایک آدمی کو اعتراض کرنے کی بہت عادت تھی ، ہر بات پر اعتراض کرتا تھا ، اس کی بیوی اس کی وجہ سے بہت...

Hazrat Luqman’s (Alaihe Salam) advice for his son

Are we giving these advices to our sons and daughters? Analyze yourself. If not start doing it from TODAY.   ...

اس ہفتے کے ٹاپ 5 موضوعات

دعا – ‎اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ کل ذَنبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ

‎اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ کل ذَنبٍ وَّاَتُوْبُ...

قرآنی ‏معلومات ‏سے ‏متعلق ‏ایک ‏سو ‏سوالات ‏

قرآنی ‏معلومات ‏سے ‏متعلق ‏ایک ‏سو ‏سوالات ‏

چھوٹے چھوٹے واقعات – بہترین سبق

امام احمدبن حنبل نہر پر وضو فرما رہے تھے...

کرایہ دار اور انکی فیملی

وہ گرمیوں کی ایک تپتی دوپہر تھی۔ دفتر سے...

Searching for Happiness?

Happiness is the only goal on earth...

ایک ایک میٹر لمبا چمچ

ایک ایک میٹر لمبا چمچ ایک حکیم سے پوچھا گیا: زندگی...

سارے تعلقات پر اللہ تعالیٰ کے تعلق کو غالب رکھو

سورہ المزّمّل آیت نمبر 8 وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ...

ایک کتا کسی نہ کسی طرح محل میں جا گھسا

کہتےھیں کہ ایک بادشاہ نےایک عظیم الشان محل تعمیر...

شیر اور بندر کی مادہ

ایک دفعہ میں ایک دوست کے ساتھ چڑیا گھر...

کیکڑا ‏- ‏سستی ‏کا ‏جانور

 کیکڑا ایک چھوٹا سا جانور ہے۔ اس کے متعلق مشہور...

ﺩﻭ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﻨﮏ ﮐﮯ ﻣﻼﺯﻡ ﺗﮭﮯ

ﺩﻭ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﻨﮏ ﮐﮯ ﻣﻼﺯﻡ ﺗﮭﮯ . ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ...

ايک شکاری نے سمندر ميں جال پھينکا اور بہت سی مچھليوں کا شکار کيا

​ ​​ايک بچے نے سمندر ميں اپنا جوتا کھو ديا...

متعلقہ مضامین

لندن – چاکلیٹ خرید کر کھایا کرتا تھا

میں نے لندن میں بادنگٹن کے علاقے میں رہائش رکھی ہوئی تھی۔ آمدورفت کیلئے روزانہ زیر زمین ٹرین استعمال کرتا تھا۔ میں جس اسٹیشن...

ایک شخص گوشت کو فریز کرنے والے کارخانہ میں کام کرتا تھا

ایک شخص گوشت کو فریز کرنے والے کارخانہ میں کام کرتا تھا ایک دفعہ کارخانہ بند ھونے سے پہلے اکیلا گوشت کو فریز کرنے والے...

​ایک شخص کا ایک بیٹا روز رات کو دیر سے آتا

ایک شخص کا ایک بیٹا تھا روز رات کو دیر سے آتا اور جب بھی اس سے باپ پوچھتا کہ بیٹا کہاں تھے.؟  تو جھٹ سے...

​ *ایک خوددار پردیسی کی ڈائری کے کچھ اوراق*

*ایک خوددار  پردیسی کی ڈائری کے کچھ اوراق* تحریر علیم خان فلکی  1 جنوری آج میں نے Resign کر دیا۔ مجھ سے جونیر ایک سعودی کو منیجر...

سبزی منڈی اور سوٹ

ننھی دکان میں نے دیکھا کہ ماں اپنے بیٹے کو آہستہ سے مارتی اور بچے کے ساتھ خود بھی رونے لگتی۔ میں نے آگے ہو...

Story – Be Thankful for the Simple Things

Be Thankful for the Simple Things·         Sheikh Salman al-OadahA man once approached a wise sage complaining of poverty....