اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰٮہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا ؕ وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ۙ وَّ مَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٌ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ ﴿۲۰﴾
:ترجمہ
خوب سمجھ لو کہ اس دنیا والی زندگی کی حقیقت بس یہ ہے کہ وہ نام ہے کھیل کود کا، ظاہری سجاوٹ کا، تمہارے ایک دوسرے پر فخر جتانے کا، اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنے کا۔ (١٦) اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش جس سے اگنے والی چیزیں کسانوں کو بہت اچھی لگتی ہیں، پھر وہ اپنا زور دکھاتی ہیں، پھر تم اس کو دیکھتے ہو کہ زرد پڑگئی ہے، پھر وہ چورا چورا ہوجاتی ہے۔ اور آخرت میں (ایک تو) سخت عذاب ہے، اور (دوسرے) اللہ کی طرف سے بخشش ہے، اور خوشنودی، او دنیا والی زندگی دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
تفسیر:
یہاں اللہ تعالیٰ نے ان دلچسپیوں کا ذکر فرمایا ہے، جن سے انسان اپنی زندگی کے مختلف مرحلوں میں دل لگاتا ہے، بچپن میں ساری دلچسپی کھیل کود سے ہوتی ہے، اور جوانی کے دور میں زیب وزینت اور سجاوٹ کا شوق پیدا ہوتا ہے، اور اس زیب وزینت اور دنیا کے ساز و سامان میں ایک دوسرے کے سامنے اپنی برتری جتانے اور اس پر فخر کرنے کا ذوق ہوتا ہے، پھر بڑھاپے میں مال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کو ہی انسان دلچسپی کا مرکز بنالیتا ہے، اور ہر مرحلے میں انسان جس چیز کو اپنی دلچسپی کی معراج سمجھتا ہے اگلے مرحلے میں وہ بےحقیقت معلوم ہونے لگتی ہے ؛ بلکہ بعض اوقات انسان اس پر ہنستا ہے کہ میں نے کس چیز کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھا ہوا تھا، آخرت میں پہنچ کر انسان کو پتہ چلے گا کہ یہ ساری دلچسپیاں بےحقیقت تھیں اور اصل حاصل کرنے کی چیز تو یہ آخرت کی خوش حالی تھی۔
آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی
سورہ الحدید آیت نمبر 20