انسان کو اپنی جگہ پہ لگا ھوا دانت چھوٹا سا محسوس ھوتا ھے مگر جب وہ دانت گرتا ھے تو دو دانتوں جیسا بڑا خلاء چھوڑ جاتا ھے اور انسان وہاں انگلی رکھ رکھ کر تصدیق کرتا ھے کہ ”ہیں!! واقعی ایک دانت گِرا ھے؟“
کچھ رشتے جب پاس ھوتے ھیں تو اتنے اھم نہیں لگتے مگر جب چلے جاتے ھیں تو اتنا بڑا خلاء چھوڑ جاتے ھیں کہ کئی انسان مل کر بھی اس خلا کو پُر نہیں کر سکتے۔ ان میں سے ایک رشتہ والدین کا ھے۔ یہ جب تک پاس ھوتے ھیں تو ہوش سنبھالتے ہی ان کی پابندیاں جان کھا جاتی ھیں _سپارہ پکڑو مسجد جاؤ ،
_مسجد جاؤ گے تو روٹی ملے گی!!
زبردستی_”اسکول دفع ھو جاؤ، کوئی چھُٹی شُٹی نئیں“_سردیوں میں گھسیٹ کر گرم کمبل سے نکالنا،
بندہ سوچتا ھے کہ کیا ان کی زندگی میں کوئی کام میں اپنی مرضی سے کر بھی سکوں گا یا نہیں؟؟
یہ بہت عجیب تعلق ہوتا ہے ،
ھر پسند کے آگے ماں باپ کھڑے نظر آتے ھیں ،ہر رنگ میں بھنگ ڈالنے والے!!
کھیل کے سنسنی خیز لمحات آخری اوورز ، آفریدی کی بیٹنگ اور عین وقت پر ماں کی للکار…
_نالائق تو ابھی تک مسجد نہیں گیا؟؟
”امی مسجد ادھر ہی ھے… نہیں کہیں جاتی، چلا جاؤں گا بس پانچ بال ھیں“
مگر جب یہ چلے جاتے ھیں تو انسان کی دنیا ویران ھو جاتی ھے، خوشی کے وقت پہلا خیال یہی تو آتا ھے کہ امی کو بتاؤں ، یا ابا کو بتاؤں کہ آپ کا وہ بیکار کا بیٹا یا بیٹی کتنے کام کے نکلے ہیں مگر پھر جھٹکا لگتا ھے کہ ”جن کو اصل خوشی ھونی تھی وہ تو چلے گئے“
”ڈھونڈ اُن کو اب چراغِ رُخِ زیبا لے کر“
ھر خوشی اپنے پس منظر میں دُکھ کی کسک چھوڑ جاتی ھے!!
والدین کی ہر وہ بات اور پابندی جس پر ہمیں اِس وقت غصہ آتا ھے حقیقت میں اُن کے خلوص و اخلاص کا مظہر ھوتا ھے ، وہ نہ صرف ہمارے نقصان بلکہ نقصان کے اندیشے سے بھی سہمے رھتے ہیں اور ھمارے مستقبل کے لئے پریشان رھتے ہیں۔ مگر یہ بات تب تک سمجھ نہیں آتی جب تک آپ کی اپنی اولاد نہیں ھوتی اور آپ بھی جوتی اٹھا کر بیٹے کے سر پر کھڑے نہیں ھوتے!!
*”والدین کا خیال رکھیں اُن کی قدر کریں ، ان کیلئے مصروف زندگی میں سے وقت نکالیں کہ ان جیسی عظیم ہستیوں کا کوئی نعم البدل نہیں ہے*