آج ایک قصائی کی دوکان پر بیٹھا تھا کہ ایک صاحب سفید پوش ۔۔۔۔چہرے پر داڑھی, سر پر ٹوپی, آنکھوں پر عینک لگائے دکان میں داخل ہوئے ۔۔۔
دکان پر کافی بھیڑ تھی ۔ لوگوں کی آوازوں سے دکان گونج رہی تھی ۔۔۔ بھائی ایک کلو گوشت دینا۔۔۔ بھائی تین کلو گوشت دینا ۔۔۔ !
جیسے ھی وہ صاحب داخل ہوئے قصائی سارے گاہکوں کو چھوڑ کر ان سے مخاطب ہوا “جی ” ۔۔۔۔ !
“آدھا کلو گوشت” نوجوان نے کہا۔
قصائی نے فوراً بہترین گوشت کا ٹکڑا کاٹا اور بوٹی بنا کر دے دی ان صاحب نے پیسے دینے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو قصائی نے لینے سے انکار کر دیا ۔۔۔۔ انہوں نے کہا “جاوید بھائ ۔۔ ! آپ ہمیشہ ایسا ھی کرتے ہیں” قصائی مسکرا دیا اور وہ صاحب دوکان سے باہر نکل گیے۔
لوگ گلے شکوے کرنے لگے کہ ھم کب سے کھڑے ھیں اور قصائی کو چربی چڑھی ہے گاہک کی قدر نہیں ہے ۔۔ !
میرا بھی تجسس بڑھا ۔۔۔
میں دوکان خالی ھونے کاانتظار کرنے لگا گاہک نپٹا کر جیسے ہی قصائی فارغ ہوا میں نے کہا دو کلوگوشت چاہیے۔
پھر میں نے پوچھا
۔”ابھی جو صاحب آپ کی دکان سے گوشت لے کر گئے ھیں ا آپ کے کوئی قریبی رشتہ دار لگتے ہیں ۔۔۔ سارے گاہک چھوڑ کرآپ نے ان کو گوشت دیا۔”۔ ۔۔
وہ بولا “جی نہیں”
میں تعجب میں پڑ گیا۔۔۔ اور پوچھا “تو پھر .. ؟ ؟
قصائی بولا “وہ میری مسجد کے امام صاحب ہیں ۔۔جو میری آخرت بنانے کی فکر میں رہتے ہیں ۔۔اور میرے بچوں کو قرآن اور حدیث کا درس دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ دنیا میں میں اچھے سلوک کے مستحق تو ھیں نا” ۔۔۔ ۔؟
میں نے کہا ” اچھا ۔۔۔ مگر تم نے ان سے پیسے کیوں نہیں لیے۔۔ ؟ “
قصائی پھر مسکرایا اور بولا ۔۔۔۔
“کیا تمھیں نہیں پتا مسجدوں کے اماموں کو کیا دیا جاتا ہے اتنے تو صاحب آپ کے بچے مہینے میں پاکٹ منی لے لیتے ہوں گے”
میں سوچنے لگا ۔۔۔۔ واقعی بات تو ٹھیک ھے ۔۔۔
قصائی پھر بولا
“صاحب یہ ہماری قوم کا سرمایہ ھے ان کو بچانا ہماری ذمہ داری ہے بازار کی تمام دوکان والوں نے یہ متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ مولانا صاحب سے کوئی پیسہ نہیں لیں گے صرف میں ہی نہیں یہ نائی، یہ جنرل سٹور والا یہ ٹیلر وہ ڈاکٹر صاحب کریانے والا دودھ والا اور سبزی والا کوئی ان سے پیسے نہی لیتا بھائی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔اتنا تو ہم کر ہی سکتے ھیں نا۔۔ ؟
“
اور پھر مسکرا کر کہا “صاحب آدھا کلو گو شت کے بدلے جنت زیادہ منافع کا سودا ہے یہ لیجیے آپ کا گوشت ۔”
میں نے پیسے قصائی کی طرف بڑھائے اور کہا ۔۔۔
“پر بھائی میں تو جاب کرتا ہوں کاش میں بھی آپ لوگوں کی طرح ان مولوی صاحب کی کوئی مدد کرسکتا”
قصائی نے کہا “بہت آسان ہے سامنے گلی میں مولانا نے سائیکل بننے کے لیے دی ہے آپ دوکان والے کو چپکے سے بل ادا کر دیجئے اور اس سے کہہ دیجئے کہ مولانا سے پیسے نہ لے۔”
میں مسکرایا اور دوکان سے نکل آیا۔۔۔۔
اس قصائی سے آج مدد کا ایک نیا سبق سیکھا تھا…
یاد رہے دوستو۔۔۔۔
۔ ان مولویوں میں بھی ہماری طرح کچھ برائیاں ہوں گی ۔۔ یہ بھی ھماری طرح کے انسان ھی ھیں ۔۔ لیکن یہ اس پر آشوب دور میں ہمارے دین کے ورثہ کے مکمل محافظ ہیں۔
جیسے چودہ سو سال پہلے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ امانت اس امت کے علماء کو دی تھی. بنی اسرائیل کے علماء کی طرح انہوں نے دین کا سودا نہیں کیا.
آئیے ۔۔۔۔۔
ہم بھی دین کے ان خادموں کی اسی طرح مدد کریں جیسے قصائی نے سکھایا۔
ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺭﺩﮔﺮﺩ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﻔﯿﺪ ﭘﻮﺵ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮭﯿﻼﺗﮯ۔
آپ کا ایک شیئر بہت بڑا کردار بطور صدقه جاریہ ادا کرسکتا ہے. آئیں ہمارے ساتھ ساتھ آپ بھی اس کار خیر کا حصّه بنیں
اللہ پاک بہت بھلا کرے
آمین