بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:980-89/L=7/1439
اگر تعویذ اسمائے حسنی ،ادعیہ ماثورہ وغیرہ پر مشتمل ہواور اس کو نافع بالذات نہ سمجھا جائے بلکہ اس کو دواکی طرح علاج تصور کیا جائے اور نظر مسبب الاسباب اللہ کی طرف ہو تو اس میں مضائقہ نہیں ؛البتہ اگر تعویذ کلمات شرکیہ کفریہ پر مشتمل ہو یا اس کو موثر بالذات تصور کیا جائے تو پھر تعویذ کا لٹکانا قطعاً جائز نہیں؛
چنانچہ مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ صحابہٴ کرام نے اللہ کے رسول کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم لوگ زمانہٴ جاہلیت میں تعویذ گنڈے (رقیہ) کیا کرتے تھے، (اب) آپ اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟ تو اللہ کے رسول نے فرمایا: ”اعرضوا علي رقاکم، لا بأس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک“ یعنی اپنے رقیوں (تعویذ گنڈوں) کو میرے سامنے پیش کرے، رقیہ میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس میں شرکیہ کوئی چیز نہ ہو (مسلم، رقم: ۱۷۲۷، باب لا بأس بالرقی الخ)
اورابوداوٴد میں ہے عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدّہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یعلمہم من الفزع کلمات: أعوذ بکلمات اللہ التامة، من غضبہ وشر عبادہ، ومن ھمزات الشیاطین وأن یحضرون․ وکان عبد اللہ بن عمر یعلمھن من عقل من بنیہ، ومن لم یعقل کتبہ فأعلقہ علیہ․ (أبوداوٴد، باب کیف الرقي، رقم: ۳۸۹۳) وفي المرقاة: وأما ما کان من الآیات القرآنیة، والأسماء والصفات الربانیة، والدعوات المأثورة النبویة، فلا بأس، بل یستحب سواء کان تعویذا أو رقیة أو نشرة، وأما علی لغة العبرانیة ونحوھا، فیمتنع لاحتمال الشرک فیھا (مرقاة المفاتیح، کتاب الطب والرقي، ۷/۲۸۸۰ط: بیروت) وفي ردالمحتار: ولا بأس بالمعاذات إذا کتب فیہا القرآن أو أسماء اللہ تعالی (رد المحتار علی الدالمختار: ۹۰/۵۲۳، ط: زکریا) وأما قول ابن العربي: السُّنة في الأسماء والقرآن الذکر دون التعلیق فممنوع (فیض القدیر: ۶/۱۰۷) جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن میں تمیمہ کو لٹکانے پر شرک کا حکم مذکور ہے،
جیسا کہ امام اسیوطی کی جامع صغیر میں ہے: من تعلق شیئا وکل إلیہ (فیض القدیر: ۶/۱۰۷) اسی طرح دوسری حدیث میں ہے: من علق ودعة فلا ودع اللہ ومن علق تمیمة فلا تمم اللہ لہ (فیض القدیر: ۶/۱۸۱) تو یہ اس صورت پر محمول ہیں جب کہ اسی تعویذ کو نافع وضار سمجھا جائے، جیسا کہ لوگ زمانہ جاہلیت میں اعتقاد رکھتے تھے، یا ان سے مراد ایسے تعاویذ ہیں جن میں الفاظ شرکیہ یا ایسے الفاظ ہوں جن کے معانی معلوم نہ ہوں، ان حدیثوں کی شرح کرتے ہوئے علامہ سیوطی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: أو المراد من علق تمیمة من تمائم الجاہلیة یظن أنہا تدفع أو تنفع فإن ذلک حرام والحرام لا دواء فیہ وکذا لو جہل معناہا وإن تجرد عن الاعتقاد المذکور فإن من علق شیئا من أسماء اللہ الصریحة فہو جائز بل مطلوب محبوب فإن من وکل إلی أسماء اللہ أخذ اللہ بیدہ․ (فیض القدیر: ۶/۱۰۷)۔(مزید تفصیل کے لیے مرقاة وغیرہ کا مطالعہ کیا جائے)۔
(۲) اسباب کو اختیار کرتے ہوئے مسبب الاسباب پر نظر رکھنا توکل کے منافی نہیں ؛بلکہ یہ بھی توکل کا ایک درجہ ہے،احادیث میں تداوی کی تاکید وارد ہے یہ خلاف توکل نہیں ہے ؛چنانچہ حدیث میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ دواء رقیہ وغیرہ کیا تقدیر الہی کو پھیر دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ھی من قدر اللہ ۔ یعنی دواء کرنا بھی تقدیر الہی ہے،اور حدیث ”تداووا عباداللہ “میں ان کو عبودیت کے ساتھ کرنے میں بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ
علاج ومعالجہ اور تداوی توکل کے منافی نہیں۔
(تداووا عباد اللہ) وصفہم بالعبودیة إیذانا بأن التداوی لا یخرجہم عن التوکل الذی ہو من شرطہا یعنی تداووا ولا تعتمدوا فی الشفاء علی التداوی بل کونوا عباد اللہ متوکلین علیہ․(فیض القدیر: ۳/۲۳۸)
وقال فی العنایة:قَوْلُہُ وَقَدْ وَرَدَ بِإِبَاحَتِہِ: أَیْ بِإِبَاحَةِ التَّدَاوِی، الْحَدِیثُ. قَالَ – صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ – تَدَاوَوْا عِبَادَ اللَّہِ فَإِنَّ اللَّہَ تَعَالَی مَا خَلَقَ دَاءً إلَّا وَقَدْ خَلَقَ لَہُ دَوَاءً، إلَّا السَّامَ وَالْہَرَمَ وَالْأَمْرُ بِالتَّوَکُّلِ مَحْمُولٌ عَلَی التَّوَکُّلِ عِنْدَ اکْتِسَابِ الْأَسْبَابِ، ثُمَّ التَّوَکُّلُ بَعْدَہُ عَلَی اللَّہِ تَعَالَی دُونَ الْأَسْبَابِ، قَالَ اللَّہُ تَعَالَی لِمَرْیَمَ {وَہُزِّی إِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ} [مریم: 25) مَعَ قُدْرَتِہِ عَلَی أَنْ یَرْزُقَہَا مِنْ غَیْرِ ہَزٍّ، کَذَا ذَکَرَہُ فَخْرُ الْإِسْلَامِ – رَحِمَہُ اللَّہُ -.(العنایة: ۱۰/ ۶۶ط: دار الفکر، بیروت)
واللہ تعالیٰ اعلم
Mufti Dr Salman – Lahore