۔ ┈••❃* ( سُوۡرَۃٌ الْبَقَرَة : ٢٢٠ ) *❃••┈
۔ ؛•━━•••◆◉ ﷽ ◉◆•••━━•؛
ارشاد باری تعالیٰ ﷻ
فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ یَسۡئَلُوۡنَکَ عَنِ الۡیَتٰمٰی ؕ قُلۡ اِصۡلَاحٌ لَّہُمۡ خَیۡرٌ ؕ وَ اِنۡ تُخَالِطُوۡہُمۡ فَاِخۡوَانُکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ الۡمُفۡسِدَ مِنَ الۡمُصۡلِحِ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَاَعۡنَتَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۲۰﴾
ترجمہ :
دنیا کے بارے میں بھی اور آخرت کے بارے میں بھی ۔ اور لوگ آپ سے یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ آپ کہہ دیجیئے کہ ان کی بھلائی چاہنا نیک کام ہے ، اور اگر تم ان کے ساتھ مل جل کر رہو تو ( کچھ حرج نہیں کیونکہ ) وہ تمہارے بھائی ہی تو ہیں ۔ اور اللہ خوب جانتا ہے کہ کون معاملات بگاڑنے والا ہے ۔ اور کون سنوارنے والا ۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشکل میں ڈال دیتا ۔ یقیناً اللہ کا اقتدار بھی کامل ہے ، حکمت بھی کامل ۔
تفسیر :
اس آیت کے نزول سے پہلے قرآن میں یتیموں کے حقوق کی حفاظت کے متعلق بار بار سخت احکام آ چکے تھے اور یہاں تک فرما دیا گیا تھا کہ “یتیم کے مال کے پاس نہ پھٹکو ۔” اور یہ کہ “جو لوگ یتیموں کا مال ظلم کے ساتھ کھاتے ہیں ، وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں ۔” ان شدید احکام کی بنا پر وہ لوگ ، جن کی تربیت میں یتیم بچے تھے ، اس قدر خوف زدہ ہو گئے تھے کہ انہوں نے ان کا کھانا پینا تک اپنے سے الگ کر دیا تھا ، یہاں تک کہ اگر ان کا کچھ کھانا بچ جاتا تو سڑ جاتا تھا اور اس احتیاط پر بھی انہیں ڈر تھا کہ کہیں یتیموں کے مال کا کوئی حصہ ان کے مال میں نہ مل جائے ۔ اس میں تکلیف بھی تھی اور نقصان بھی۔ اسی لئے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ان بچوں کے ساتھ ہمارے معاملے کی صحیح صورت کیا ہے ۔
اس آیت نے واضح کر دیا کہ اصل مقصد یہ ہے کہ یتیموں کی مصلحت کا پورا خیال رکھا جائے، سرپرستوں کو مشکل میں ڈالنا مقصد نہیں ہے۔ لہٰذا ان کا کھانا ساتھ پکانے اور ساتھ کھلانے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ معقولیت اور انصاف کے ساتھ ان کے مال سے ان کے کھانے کا خرچ وصول کیا جائے۔ پھر اگر غیر ارادی طور پر کچھ کمی بیشی ہو بھی جائے تو معاف ہے۔ ہاں جان بوجھ کر ان کو نقصان نہ پہنچایا جائے، رہی یہ بات کہ کون انصاف اور اصلاح سے کام لے رہا ہے اور کس کی نیت خراب ہے، اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔