پاکستان نا ہوتا تومیں کیا ہوتا ؟
ہندوستان کا دوسرے درجے کا شہری ؟
نہیں دوسرے نہیں شاید تیسرے یا چوتھے درجے کا شہری کیوں کہ دوسرے درجے پہ تو ہندو دلت فائز ہیں , تیسرے پہ سکھ اور عیسائی
ہاں میں چوتھے درجے کا شہری ہوتا , مجھے مسلمان کے بجائے مسلا کہہ کر تمسخر آمیز لہجے سے پکارا جاتا ,
میں جس مسجد میں نماز پڑھتا وہاں شروع شروع میں کوئی ہندو انتہا پسند تنظیم باقاعدگی سے ہر دوسرے تیسرے دن خنزیر کا سر کاٹ کر پھینکتی , پھر بھی میں نمازیں پڑھنے سے باز نا آتا تو ریاستی حکومت کی ملی بھگت سے وہ مسجد ہی یا تو تاریخی یادگار قرار دے کر اس پر تالا لگا دیا دیا جاتا یا پھر کوئ ہندو تاریخ دان اس مسجد کی بنیادوں میں چھپا کوئی مندر ڈھونڈ لیتا اور وہ مسجد مسمار کر دی جاتی
اگر میں پاکستانی نا ہوتا تو بھارتی فلموں میں مجھے ایک قصائی کے روپ میں چھرے اٹھائے دہشت پھیلاتے دکھایا جاتا , میری قوم کو ایک دہشت گرد اور جنونی قوم کے طور پر میڈٰیا میں پیش کیا جاتا
اگر میں کوئی کاروبار کرنا چاہتا تو حیدر آباد کے تاجروں کی طرح ہر چیز چھین کر مجھے زندہ جلا دیا جاتا ,
اگر میں سیاست میں پڑ جاتا تو گجرات کے اقبال احسان ایم ایل اے کی طرح بیٹیوں سمیت برہنہ زبح کر کے جلا دیا جاتا
یا پھر جس طرح پچھلے دنوں کی ایک ٹی وی شو میں ہی ایک گروہ آ کر مجھ پر پٹرول چھڑکتا اور آگ لگا دیتا
میں پاکستانی نا ہوتا تو میں اپنے رب کی حلال کی گئی چیزوں کو جان کے خوف سے اپنے لئے حرام سمجھ لیتا
میں اگر کوئی عالم ہوتا تو مجبورا مجھے ہندوؤں کو اپنا بھائی بنانا پڑتا , میرے فتوے ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف اور ہندوؤں کے حق میں ہوتے ,
میں اگر پاکستانی نا ہوتا تو کیا میں انسان بھی ہوتا ؟
کیا یہ لوگ مجھے ایک انسان کا درجہ تک دے دیتے ؟
کیا یہ لوگ مجھے سکون سے اپنے مطابق زندگی گزارنے دیتے ؟
کیا میں اپنے اسلام پہ اس طرح کاربند رہتا ؟
یا ہندوستان کے لاکھوں مسلمانوں کی طرح سیکولر ہونے کا ناٹک کرتا ؟
میں پاکستانی ہوں
اس میں میرا کوئی کمال نہیں
ہاں میرے آباء کی قربانیاں ہیں , انکی جدوجہد ہے کہ آج میں پرسکون فضاؤں میں سانس لے رہا ہوں
جہاں مجھے ہندو سنگھٹنوں کا خوف نہیں
لیکن کیا یہ سب پلیٹ میں ملا
نہیں اس کے لئے ایک خون کا دریا عبور کرنا پڑا .. ریاست پٹیالہ کی تحصیل سمانے سے لیکر لاہور تک ایک خونی سفر طے کرنا پڑا , جس کی رواداد سن کر میں ہمیشہ کانپ اٹھتا ہوں , اپنے آباء کے لہو میں ڈوبی یہ داستان ہر اگست میں میرے دماغ پر چھا جاتی ہے , جو مجھے یاد دلاتی ہے کہ بیٹا یہ پاکستان پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملا تھا , اس کے لئے جوانوں کی جوانیاں , بہنوں کی عزتیں , بزرگوں کی بزرگیاں , لٹائیں گئیں , , سمانے کے زمیندار گھرانے در در خاک چاٹنے کو مجبور ہوے , بڑی بڑی حویلیوں میں رہنے والوں نے کُٹیا میں رہنا سیکھا ,,,, یہ حجرت نہیں خون کا سمندر تھا جس میں ڈوبے اپنے عزیز و اقارب آج بھی یاد آتے ہیں , تب جا کر وہ درجہ حاصل ہوا جس سے اللہ پاک نے چوتھے درجے کا شہری نہیں بلکہ ایک پاکستانی کے خطاب کا تاج سر پر سجایا .. اور آج میں یعنی جدوجہد کرنے والوں کی تیسری نسل الحمداللہ فخر سے یہ بتا سکتا ہوں کہ
ہاں …. میں پاکستانی ہوں