Home قرآن الکریم اللہ کا فضل تلاش اور شکر گزار بنو

اللہ کا فضل تلاش اور شکر گزار بنو

0
47

سورہ النحل آیت نمبر 14

وَ ہُوَ الَّذِیۡ سَخَّرَ الۡبَحۡرَ لِتَاۡکُلُوۡا مِنۡہُ لَحۡمًا طَرِیًّا وَّ تَسۡتَخۡرِجُوۡا مِنۡہُ حِلۡیَۃً تَلۡبَسُوۡنَہَا ۚ وَ تَرَی الۡفُلۡکَ مَوَاخِرَ فِیۡہِ وَ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۱۴﴾    

ترجمہ:
اور وہی ہے جس نے سمندر کو کام پر لگایا، تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤ (٧) اور اس سے وہ زیورات نکالو جو تم پہنتے ہو۔ (٨) اور تم دیکھتے ہو کہ اس میں کشتیاں پانی کو چیرتی ہوئی چلتی ہیں، تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو، اور تاکہ شکر گزار بنو۔ (٩) 

تفسیر:
7: مچھلی کا گوشت مراد ہے 8: سمندر سے موتی نکلتے ہیں جو زیورات میں کام آتے ہیں 9: یعنی سمندر میں تجارت کا سفر کر کے اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بنو۔ قرآن کریم نے ” اللہ کا فضل تلاش کرنے “ کی اصطلاح بہت سی آیتوں میں تجارت کے لیے استعمال فرمائی ہے۔ دیکھئے سورة بقرہ 198 سورة بنی اسرائیل 66، سورة قصص 73 سورة روم 46 سورة فاطر 12 سورة جاثیہ 12 سورة جمعہ 10 اور سورة مزمل 20 ۔ تجارت کو اللہ تعالیٰ کا فضل کہنے سے ایک طرف تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر تجارت شرعی احکام کی پابند ہو تو وہ ایک پسندیدہ چیز ہے۔ اور دوسری طرف اس اصطلاح سے تاجروں کو یہ تنبیہ بھی کی جارہی ہے کہ تجارت میں جو نفع حاصل ہوتا ہے، وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، کیونکہ انسان کوشش ضرور کرتا ہے، لیکن اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو تو کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی لہذا اگر تجارت کے ذریعے مال و دولت حاصل ہوجائے تو انسان کو مغرور ہونے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ 

 آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی 

https://goo.gl/2ga2EU

NO COMMENTS

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here