عربی تحریر
سے منقول
یہ جملہ کس
نے کہا تھا؟ لیجیئے جانیئے
سیدنا عمر بن
خطابؓ کی جستجو شدت اختیار کرگئی کہ بے شک ابوبکر صدیقؓ مدینے کے اطراف میں فجر کی
نماز کے بعد جاتے تھےاور کچھ دیر کے لیے ایک گھر میں جاتے پھر اس گھر سے نکل جاتے۔
سیدنا عمرؓ
سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں، جو وہ کرتے اسے جانتے تھےسوائے اس گھر کے راز کے۔
دن گزرتے رہے
سیدنا ابوبکرؓ جب تک خلیفہ رہے وہ اس گھر (کے اہل) کی ملاقات کے لیے جاتے, اور
سیدنا عمر اس راز سے نا واقف ہی رہے کہ وہ گھر کے اندر کیا کرنے جاتےہیں
ایک دن سیدنا
عمر سیدنا ابوبکرؓ کے نکل جانے کے بعد اس گھر میں رکے رہے تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے
دیکھیں کہ اس کے اندر کیا ہے اور دیکھیں کہ ابوبکر ؓ نماز فجر کے بعد اس میں کیا
کرتے ہیں۔
سیدنا عمر
رضى الله عنه جب اس چھوٹی سے جھونپڑی میں آئے تو اس میں ایک بڑھیا کو پایا جو حرکت
کے قابل بھی نہیں تھی اور نہ ہی اس کے پاس کوئی اور تھا
ایسے لگ رہا
تھا کہ وہ آنکھوں سے اندھی ہے اور انہوں نے اس گھر میں اس کے علاوہ اور کچھ نہ
پایا
سیدنا عمرؓ
نے جو دیکھا اس پر حیران ہوئے
اور اس بات
کا ارادہ کیا کہ وہ اس بڑھیا کے ساتھ سیدنا ابوبکرؓ کے تعلق کا راز جانیں
سیدنا عمرؓ
نے بڑھیا سے پوچھا
یہ شخص آپ کے
پاس کیا کرنے آتا ہے؟ (ان کی مراد سیدنا ابوبکرؓ سے تھی)
اس پر بڑھیا
نے جواب دیا کہنے لگیں
اللہ کی قسم!
اے میرے بیٹے میں نہیں جانتی, یہ شخص روز صبح کے وقت آتا ہے، میرا گھر صاف کرتا
ہے، جھاڑو لگا دیتا ہے، پھر وہ میرے لیے کھانا بناتاہے اور بات کیے بغیر چلا جاتا
ہے
پھر جب سیدنا
ابوبکرؓ فوت ہوئے اورسیدنا عمرؓ نےاس نابینا بوڑھیا کا خیال رکھنے کا ارادہ
کیا
تو بڑھیا نے
عمرؓ سے کہا:
کیا تمہارا
دوست فوت ہوگیاہے؟
سیدنا عمرؓ
نے کہا:
آپ کو کیسے
پتہ چلا؟
کہنے لگیں:
*تم میرے پاس
کھجور لائے ہو لیکن اس میں سے گھٹلی نہیں نکالی*
سیدنا عمر بن
خطابؓ اپنے گھٹنوں کے بل گرپڑےاور آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے اور ایک مشہور جملہ کہا
”*اے ابو
بکر! آپ نے اپنے بعد آنے والے خلفاء کو تھکا دیا“*
کیا ہم ابو
بکر کو روئیں یا عمر کو روئیں یا کسی کی ضرورت میں، اس کی مدد کرنے میں، اپنی حرص
اور بخل کو روئیں
اللہ تعالی
ان سے راضی ہوں اور ان کو راضی کریں
اللہ عزوجل
کا قول ان کے بارے میں بالکل سچا ہے
*وہ لوگ
جنہوں نے اللہ سے جو عہد کیا اس کو سچ کر دکھایا*
جو آپ نے
پڑھا وہ کتنا خوبصورت ہے
شیئر کریں
خیر پھیلائں