سورہ التوبۃ آیت نمبر 75
وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ عٰہَدَ اللّٰہَ لَئِنۡ اٰتٰٮنَا مِنۡ فَضۡلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۷۵﴾
ترجمہ: اور انہی میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے یہ عہد کیا تھا کہ اگر وہ اپنے فضل سے ہمیں نوازے گا تو ہم ضرور صدقہ کریں گے، اور یقینا نیک لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔
سورہ التوبۃ آیت نمبر 76
فَلَمَّاۤ اٰتٰہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ بَخِلُوۡا بِہٖ وَ تَوَلَّوۡا وَّ ہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ ﴿۷۶﴾
ترجمہ:
لیکن جب اللہ نے ان کو اپنے فضل سے نوازا تو اس میں بخل کرنے لگے، اور منہ موڑ کر چل دیے۔ (٦٦)
تفسیر:
66: حضرت ابو امامہ (رض) کی ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص جس کا نام ثعبلہ بن حاطب تھا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا، اور درخواست کی کہ آپ میرے لیے مال دار ہونے کی دعا فرمادیں۔ آپ نے شروع میں اسے سمجھایا کہ بہت مال دار ہونا مجھے اپنے لیے بھی پسند نہیں ہے۔ لیکن اس نے بار بار اصرار کیا، اور یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر میں مال دار ہوگیا تو ہر حق دار کو اس کا حق پہنچاؤں گا، آپ نے اس موقع پر حکیمانہ جملہ بھی ارشاد فرمایا کہ تھوڑا مال جس کا تم شکر ادا کرسکو اس زیادہ مال سے بہتر ہے جس کا شکر ادا نہ کرسکو۔ اس پر بھی اس کا اصرار جاری رہا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرما دی۔ چنانچہ وہ واقعی مال دار ہوگیا اور اس کے مال مویشی اتنے زیادہ ہوگئے کہ ان کی دیکھ بھال میں نمازیں چھوٹنے لگیں، پھر وہ ان جانوروں کی زیادتی کی وجہ سے مدینہ منورہ سے باہر جا کر رہنے لگا۔ شروع میں جمعہ کے دن مسجد میں آجاتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ جمعہ کو آنا بھی چھوڑ دیا۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے لوگ زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے اس کے پاس پہنچے تو اس نے زکوٰۃ پر پھبتیاں کسیں، اور ٹال مٹول کر کے ان حضرات کو واپس بھیج دیا۔ اس آیت میں اس واقعے کی طرف اشارہ ہے (روح المعانی بحوالہ طبرانی و بیہقی)
آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی