ایک صاحب شدید مالی تنگی کا شکار تھے… کھانا پینا تو خیر پورا ہو جاتا تھا مگر رہائش کی سخت پریشانی تھی…
وہ ایک اللہ والے بزرگ سے عقیدت رکھتے تھے… حالات سے تنگ ہو کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے… اور عرض کیا کہ حضرت! بہت تکلیف ہے، بہت پریشانی ہے… بس ایک کمرے کا گھر ہے… اس میں خود بھی رہتا ہوں میری بیوی اور چار بچے بھی ساتھ ہیں… بوڑھی والدہ اور دو بہنیں بھی ساتھ ہیں… اور خاندان کی ایک بوڑھی رشتہ دار بیوہ خاتون بھی میرے زیر کفالت ہیں… اتنے سارے افراد اور ایک کمرہ… بہت سخت پریشانی ہے… یہ کہتے ہوئے ان کے آنسو بار بار چھلک پڑے…
بزرگوں نے گردن جھکائی ، غور کیا اور فرمایا… تمہارا مسئلہ حل ہو جائے گا… ایک مرغا لے آؤ … اور اسے بھی اپنے کمرے میں ساتھ رکھ لو …
وہ صاحب خوشی خوشی گئے… مرغا لیا اور اسے بھی کمرے میں رکھ لیا…
ایک ہفتے بعد بزرگوں کے پاس حاضر ہوئے تو پہلے سے زیادہ غمزدہ اور دکھی تھے… حضرت ! مسئلہ بالکل حل نہیں ہوا… بلکہ اب تو اور بڑھ گیا ہے… مرغا شور مچاتا ہے، گندگی پھیلاتا ہے…
بزرگوں نے گردن جھکائی، تھوڑا سا سوچا اور فرمایا… اب میں سمجھا… تمہارا مسئلہ تھوڑا بڑا ہے… تم ایک بکرا لے آؤ… اور اسے بھی ساتھ رکھو… اور ایک ہفتے بعد اطلاع دو…
ہفتے بعد وہ صاحب آئے تو پریشانی سے کانپ رہے تھے…
یا حضرت ! مسئلہ اور گھمبیر ہو گیا ہے … بکرا پیشاب بھی کر دیتا ہے اور نیند بھی ٹھیک نہیں کرنے دیتا…
بزرگوں نے غور کیا اور فرمایا… اچھا اچھا اب سمجھا تمہارا مسئلہ کیا ہے… تم ایسا کرو کہ ایک گدھا لے آؤ اور اسے بھی ساتھ رکھو… اور ہفتے بعد اطلاع کرو…
ایک ہفتے بعد وہ صاحب آئے تو… لگتا تھا کہ… غم اور پریشانی سے ابھی وفات پا جائیں گے… آنسو اُن کی آنکھوں سے برس رہے تھے… اور وہ ادھ موئے ہو چکے تھے…
یا حضرت! اب تو زندگی سے تنگ ہو گیا ہوں… گدھے نے تو جینا حرام کر دیا ہے …
بزرگوں نے فرمایا اچھا ایسا کرو کہ مرغا نکال دو… اور ہفتے بعد اطلاع کرو…
وہ صاحب ہفتے بعد آئے اور کہنے لگے حالات میں تھوڑی سی بہتری ہو گئی ہے…
بزرگوں نے کہا… اچھا اب بکرا بھی نکال دو… اور ہفتے بعد اطلاع کرو…
ہفتے بعد انہوں نے آ کر بتایا کہ حالات پہلے سے کافی بہتر ہیں…
فرمایا اب گدھا بھی نکال دو اور ہفتے بعد اطلاع کرو…
ہفتے بعد وہ صاحب آئے تو ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ تھا…
چہرے پر مسکراہٹ اور انگ انگ میں خوشی…
یا حضرت! مسئلہ بالکل حل ہو گیا ہے… اب اپنا کمرہ بنگلہ لگتا ہے … سب گھر والے خوش ہیں… سب کھلے کھلے رہتے ہیں اور کمرہ… بالکل پاک صاف ہے… اسی خوشی میں مٹھائی لایا ہوں… قبول فرمائیے …
وہ صاحب مٹھائی دے کر چلے گئے تو بزرگوں نے فرمایا کہ… اب اس کی گاڑی کامیابی والی سڑک پر آگئی ہے…
اب یہ ہر دن… مزید راحت اور ترقی پائے گا ان شاء اللہ
شکوے سے شکر تک
وہ صاحب جب پہلی بار بزرگوں کے پاس آئے تھے تو وہ رو رہے تھے… اور آخری بار جب آئے تو خوش تھے… حالانکہ وہی کمرہ تھا اور وہی افراد… کچھ بھی اضافہ نہ ہوا تھا…
آنسو سے مٹھائی تک کا یہ سفر…
شکوے سے شکر تک کا یہ سفر … بظاہر بہت چھوٹا ہے مگر حقیقت میں یہ… زمین سے آسمان تک کے سفر سے بھی زیادہ بڑا ہے …
وہ صاحب آئے تھے تو بزرگوں نے سمجھ لیا کہ … اُن کے رزق میں تنگی کا بڑا سبب… ان کی ناشکری اور بے صبری ہے… یہ اگر ناشکری چھوڑ دیں تو ان کی روزی کے تمام دروازے کھل جائیں گے… چنانچہ بزرگوں نے ان پر پہلے سخت بوجھ لادا پھر یہ بوجھ ہلکا کیا تو… ان کی حالت بدل گئی…
اپنی بیماری میں کراہنے والا کوئی شخص… ہسپتال کے ایمرجنسی یا کیجولٹی وارڈ میں چلا جائے تو واپسی پر وہ شکر ادا کرتے ہوئے نکلتا ہے…
شیطان کا ایک نام ’’کفور‘‘ ہے… بہت بڑا ناشکرا… اور یہی ’’ناشکری‘‘ شیطان کے ہتھیاروں میں سے ایک مہلک ہتھیار ہے… شیطان سارا دن اور ساری رات ناشکری بانٹتا ہے …
آپ کے پاس جو سواری ہے… آپ کو اس سے اچھی سواری کی لالچ میں ڈال دے گا… تب اپنی سواری حقیر نظر آئے گی تو ضرور ناشکری ہو گی …
اور جب ناشکری ہو گی تو پھر برکت ضرور اٹھ جائے گی…
اس لئے ضروری ہے کہ… ہم شیطان کے اس وار کو سمجھیں … اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو کچھ عطاء فرمایا ہے… اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں…
اور اپنے دل کو اس نعمت پر راضی کریں…
آج مسلمانوں میں جو ہر طرف رزق کی تنگی اور بے برکتی پھیلی ہوئی ہے… اس کا ایک بڑا سبب… یہی ناشکری ہے
اس ناشکری سے ہم سب توبہ کریں… اور اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگا کریں
اَللّٰھُمَّ رَضِّنِیْ بِمَا قَضَیْتَ لِیْ
اَللّٰھُمَّ رَبِّ قَنِّعْنِیْ بِمَا رَزَقْتَنِیْ وَبَارِکْ لِیْ فِیْمَا اَعْطَیْتَنِیْ
یا اللہ مجھے جو عطاء فرمایا ہے… اسی پر مجھے خوشی اور قناعت عطاء فرما دیجئے
رَضِیْتُ مَا اَعْطَانِیَ اللّٰہُ
میں اس پر راضی ہوں… جو کچھ اللہ تعالیٰ نے مجھے عطاء فرمایا ہے…
میاں بیوی ، اولاد، مکان ، خوراک ، کپڑے ،صحت وغیرہ… ان سب میں ہم شکرگذاری کے راستے کو اختیار کریں…
#سعدی_کے_قلم_سے