Home جان_کے_جیو تقلید کسے کہتے ہیں؟

تقلید کسے کہتے ہیں؟

0
57

 اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ محترم مفتیان عظام سے میرے کچھ سوالات ہیں

1- تقلید کسے کہتے ہیں؟ 

2- کن مسائل میں تقلید جائز نہیں؟

3- کن مسائل میں تقلید واجب ہے؟

4- کن پر تقلید واجب  ہے؟ 

5- کن کیلیے منع ہے؟ 

6- مجتہد کے کتنے طبقے ہیں؟ 

7 – کیا قرآن و احادیث سے تقلید ثابت ہے؟

*1* جس شخص پر اعتماد ہو کہ دلیل کے موافق حکم بتائے گا اس کے قول کو تسلیم کرلینا اور اس سے دلیل کا مطالبہ نہ کرنا تقلید ہے.بالفاظ دیگر “تقلید”  کہتے ہیں کہ کسی ناواقف / عام آدمی کا کسی غیرمنصوص اجتہادی مسئلہ میں مجتہد کی بات کو بغیر مطالبہ دلیل کے ماننا کہ یہ جو مسئلہ بھی بتائے گا صحیح بتائے گا۔

 *2* , *3* ۔ مقلدین حضرات اپنے امام کی تقلید ان ہی مسائل میں کرتے ہیں جہاں قرآن و حدیث میں صاف حکم مذکور نہیں ہے قرآن و حدیث میں جو حکم صاف موجود ہے اس میں نہ کسی امام کی تقلید کی جاتی ہے نہ اس کی ضرورت ہے ۔

نیز واضح رہے کہ تقلید صرف ان مسائل میں ہوتی ہے جو اجتہادی ہوں جن کا سمجھنا عوام کی سمجھ سے باہر ہو، اور  وہ مسائل جو منصوص ہیں جیسے نماز پڑھنا، ایمان لانا، حج کرنا، روزے رکھنا، یا جن کا حرام ہونا واضح ہے جیسے چوری، زنا، ڈکیتی وغیرہ ان مسائل میں تقلید کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ان میں کسی امام کی تقلید کی جاتی ہے۔ تقلید کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ کبھی مسئلہ اجمالی طور پر بیان ہوتا ہے، مگر اس کی تفصیل مطلوب ہوتی ہے، مجتہد ان تمام حالات میں جہاں امت کسی گرداب میں پھنس جائے آکر ان کے لیے راہِ عمل متعین کرتا ہے۔

 *4* ۔ عام آدمی پر تقلید واجب ھے۔ کیونکہ عام آدمی مختلف فیہ احادیث کے مابین یہ فرق نہیں کرسکتا کہ کونسی حدیث ناسخ ہے اور کونسی منسوخ، کونسی حدیث راجح ہے اور کونسی مرجوح اور کونسی حدیث کا کیا درجہ ہے اور اس کا محل اور مصداق کیا ہے؟ اسی لیے ہر کس و ناکس کو اس کی اجازت نہیں کہ صحاح ستہ کو سامنے رکھ کر کسی ماہر مستند اہل حق عالم سے پڑھے اور سمجھے بغیر از خود عمل کرنا شروع کردے اس سے گمراہی کا اندیشہ ہے، اور نفسانی خواہشات کی پیروی میں پڑ جانے کا خطرہ ہے جیسے کوئی نابینا شخص ہو جو راستے کے خطرات او رنشیب و فراز سے ناواقف ہو اورو وہ کسی بینا شخص کا ہاتھ پکڑے بغیر اور کسی جانکار کی راہنمائی کے بغیر اس راستے پر چل پڑے تو امکان اس کا ہے کہ وہ راستہ بھٹک جائے یا راستے کے گڑھے میں گر پڑے، اس لیے سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ جو حضرات قرآن وحدیث اور دین و شریعت کے ماہرین ہیں ان کی تشریحات پر اعتبار کیا جائے، اسلاف میں سے حضرات ائمہ اربعہ کی علمی بصیرت او راجتہادی شان پر دنیائے اہل علم کا اتفاق ہے اور ان کے مذاہب و مسائل کتابوں میں مدوّن ہیں اس لیے ان چار ائمہ مجتہدین میں سے کسی ایک امام کی تقلید لازم و واجب ہے اس لیے کہ فقہاء کرام احادیث کے معانی اور مفاہیم کو سب سے زیادہ جانتے ہیں لہٰذا اپنی ناقص فہم کے مقابلے میں ان مجتہدین کے فہم پر اعتماد کرنا بدرجہا بہتر ہے۔

 *5* , *6* ۔ جو شخص کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کا علم رکھتا ہے، لغوی و شرعی معانی پر اس کو عبور ہے، وجوہِ استدلال یعنی خاص، عام، مشترک، موٴول، ظاہر، نص، مفسر، محکم، مجمل، متشابہ، خفی، مشکل، حقیقت، مجاز، صریح، کنایہ، عبارة النص، اشارة النص، دلالة النص، اقتضاء النص اور ان کے ماخذ اشتقاق، ان کی ترتیب، ان کے معانی اصطلاحیہ قطعیت وظنیت، امر ونہی وغیرہ کے درجات، رواةِ احادیث کے احوال وغیرہ جیسے امور میں مہارتِ تامہ رکھتا ہے اور ان سب امور کو ملحوظ رکھ کر استنباط واستخراجِ مسائل پر پوری قدرت اس کو حاصل ہے وہ مجتہد ہے، اس کیلئے تقلید کرنا جائز نہیں۔

 *7* ۔ قرآن وحدیث کی مندرجہ ذیل نصوص سے تقلید کا ثبوث ملتا ھے۔

قرآن پاک میں ارشادِ خداوندی ہے:

﴿فَاسْئَلُوْا اَهْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾  (النحل:43)  

مذکورہ آیت کے الفاظ عام ہیں، جو قرآنی اسلوب کے اعتبارسے   در حقیقت اہم ضابطہ ہے جو عقلی بھی ہے، اورنقلی بھی  کہ جو لوگ یہ احکام نہیں جانتے وہ جاننے والوں سے پوچھ کر عمل کریں ، اورنہ جاننے والوں پر فرض ہے کہ جاننے والوں کے بتلانے پر عمل کریں، اسی کا نام تقلید ہے۔

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ بیشک مجھے نہیں معلوم کہ تمہارے درمیان میں میری زندگی کتنی باقی ہے؛ لہٰذا میرے بعد تم ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی اقتدا کرنا۔ اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلنا۔ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو بھی بات بیان کریں اس کی تصدیق کرنا۔ مذکورہ صحیح حدیث شریف سے تقلید کا حکم صاف طور پر واضح ہوجاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تقلید کا حکم فرمایا ہے۔ حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے:

مسند أحمد ط الرسالة (38/ 310):

“عن حذيفة قال: كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم جلوساً فقال: ” إني لا أدري ما قدر بقائي فيكم؟ فاقتدوا بالّذين من بعديـوأشار إلى أبي بكر، وعمرـ، وتمسكوا بعهد عمار، وما حدثكم ابن مسعود فصدقوه

فقط واللہ اعلم بالصواب

[19/04/2020, 15:11] Mufti Mahmood Ul Hassan: . 

NO COMMENTS

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here