اسے ہر چیز کی خبر ہے۔اس کی رحمت یہ گوارانہیں کرتی کہ کوئی فریادی اس کے دراقدس پر آئے اور وہ خالی ہاتھ چلاجائے۔یہ اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ مگر انسانوں میں سے کم ہی لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں۔ اس ناواقفیت کا سبب صرف اتنا ہے کہ لوگ اپنی محرومی کو یاد رکھتے ہیں، خدا کی عطا کویاد نہیں رکھتے۔
انسانوں کا یہ عجیب المیہ ہے کہ نعمتوں کو محسوس کرنے اورانہیں یاد رکھنے کے معاملے میں انسانوں کی یادداشت آخری درجہ میں کمزور ہے۔ہاں غم و آلام اور زندگی کی محرومیوں کا حساب کتاب رکھنے میں ہر شخص اتنا ماہر ہوتا ہے کہ ایک بھی محرومی اس کی یادداشت سے محو نہیں ہوتی۔ اس رویے کے ساتھ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان خدا کی کسی عطا کی قدردانی کرے۔
خدا سے جب بھی مانگا جاتا ہے وہ سنتا ہے۔جب اسے پکارا جاتا ہے وہ جواب دیتا ہے۔ دنیا جو عطا کے نہیں امتحان کے اصول پر بنی ہے۔چنانچہ امتحان میں کبھی وہ مانگی ہوئی چیز ہی دیتا ہے، کبھی اس سے بہتر دیتا ہے۔ کبھی فوراً دے دیتا ہے کبھی کچھ وقت کے بعد دیتاہے۔ کبھی اپنی عطا سے جھولی بھرتا ہے اور کبھی اپنی سکینت قلب پر اتارکراس میں سکون و اطمینان بھردیتا ہے۔مگر وہ دیتا ضرورہے۔اسے مانگنے والوں کونہ کہنا اچھا نہیں لگتا۔
متاع دنیا تو بندے کی بہتری کے خیال سے روکی جاسکتی ہے۔ متاع آخرت روکنے میں کیا بہتری۔ ہدایت اور آخرت خدا ہر حال میں دیتا ہے۔ فوراً دیتا ہے۔ بس جھولی پھیلی رہنی چاہیے۔ تعصب چھوڑ دینا چاہیے۔ خداہر حال میں دیتا ہے۔ جو مانگا جاسکتا ہے وہ سب کچھ دیتا ہے کیونکہ خدا سے مانگتے رہنا کبھی ضائع نہیں جاتا۔
Abu yahya Inzaar.org