میں ایک سرکاری محکمے میں جاب کرتا ہوں۔یہ سردیوں کے دن تھے اور میں مصروفیت کے باعث 2 ماہ15دن کے لمبے عرصے بعد گھر چھٹی گیا ۔ گھر پہنچا تو عید کا سماں تھا. ماں باپ بہن بھائی سب بہت خوش تھے. میں نے اس مہینے کی تنخواہ والدہ کے ہاتھ پر رکھ دی. والدہ نے رقم کا کچھ حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی نیت سے علیحدہ کیا اور کہا کہ اس رقم سے ایک بیوہ عورت کے گھر راشن خرید کر پہنچا دینا جو دور کے ایک گاٶں میں رہتی تھی. میں اسی وقت گیا اور راشن خرید کر لایا. گھر میں میرے لئے پر تکلف طعام کا انتظام کیا گیا تھا. بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر لذیذ کھانوں کے مزے اڑائے اور سفر کی تھکاوٹ دور کرنے کی غرض سے رضائی میں گھس گیا. آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں کہ اچانک اس بیوہ عورت اور اس کے یتیم بچوں کا خیال آیا. ارادہ کیا کہ ابھی جاؤں اور سامان پہنچا آؤں، طبیعت میں سُستی تھی سوچا کل پہنچا دوں گا. لیکن بعد میں خیال آیا میں تو پر تکلف کھانے کا مزا لے چکا کہیں وہ بچے بھوکے نہ ہوں. اسی وقت لحاف سے نکلا, ایک چادر اوڑھی،تھیلا موٹر باٸیک پر رکھا اور اس کے گھر کی طرف نکل پڑا.
شدید سردی تھی, دھند بھی زیادہ تھی . ایک دور گاٶں میں اس عورت کا گھر تھا.اس کا شوہر مزدوری کرتا تھا اور چار بچے تھے. ایک ناگہاں حادثے میں شوہر کی موت ہو گئی اور اب اسکے یتیم بچوں پر دست شفقت رکھنے والا کوئی نہ تھا. قسمت بھی بہت ستم ظریف ہے………
خیالات کا اک سمندر لئے اس بیوہ عورت کے گھر کے باہر پہنچا. گھر کیا تھا بلکہ ایک ڈربہ تھا. ایک کمرہ, چھوٹا سا صحن اور ایک خمیدہ سی چار دیواری تھی. دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک 5 سالہ بچی باہر آئی. جس کے چہرے پر پریشانی, خوف اور بھوک نمایاں تھی. میں اس کے چہرے کو تکے جا رہا تھا اور دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ اللہ کسی بچے پر ایسا وقت نہ لائے. اس بچی نے ایک پرانا سا جوڑا پہنا ہوا تھا اور شدید سردی میں ایک پھٹی پرانی جرسی پہنی ہوئی تھی . پاؤں برہنہ تھے وہ بھی اس سردی میں کہ پیروں کو جما کہ رکھ دے. میں نے کچھ کہے سنے بغیر راشن والا تھیلا زمین پر رکھا. تھیلے کو دیکھتے ہی وہ بولی,”کیا اس میں کھانے کا سامان ہے؟”
یہ سُننا تھا کہ میں حیران ہو گیا. ایک بار پھر اس نے یہی سوال دہرایا. میں نے مثبت انداز میں سر ہلایا. وہ بچی خوشی کے مارے چیختی چلاتی ماں کہ طرف بھاگی اور یہ کہے جا رہی تھی “امی فرشتہ آگیا, امی فرشتہ آگیا, امی فرشتہ آگیا ” اور پھر دو اور چھوٹے چھوٹے بچے خوشی مارے دروازے پر دوڑے چلے آئے. کبھی مجھے دیکھتے کبھی اس تھیلے کو اور خوشی سے لوٹ پوٹ ہوئے جا رہے تھے.
میری آنکھوں سے آنسو رواں ہونے لگے, ہونٹ کپکپا رہے تھے اور جسم میں ایک سرد لہر سی دوڑ رہی تھی. یا اللہ یہ کیا ماجرا ہے؟ کیوں یہ بچے مجھ گنہگار کو فرشتہ سمجھ بیٹھے ہیں. انہیں سوچوں میں غلطان تھا کہ ایک خاتون جو ان کی ماں تھی دروازے پر آئی اور دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہوکر روہانسی آواز میں یہ کہنے لگی.
میرے بچے دو دن سے بھوکے تھے. غیرت گوارا نہیں کرتی کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلاؤں. میرے مرحوم شوہر بھی محنت مزدوری کرتے تھے مگر کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا تھا. ان کے چلے جانے کے بعد ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں. رشتہ داروں نے ہاتھ کھینچ لئے ہیں اور محلے والے بھی مدد نہیں کرتے. مگر کبھی کبھی آپ جیسے نیک دل لوگ مدد کر دیتے ہیں. میں دو دن سے بچوں کو یہ کہہ کر بہلا رہی تھی کہ ایک فرشتہ آئے گا اور ہمارے لئے کھانا لے آۓ گا. اسی لئے یہ آپ کو فرشتہ سمجھ بیٹھے ہیں. اس عورت نے اللہ کے حضور شکرانے کے چند کلمات ادا کئے, مجھے ڈھیر ساری دعائیں دیں اور شکریہ ادا کیا.
میں وہاں سے واپس ہو لیا, آنسو رُکنے کا نام نہیں لے رہے تھے. زندگی میں کبھی خود کو اتنا پرسکون محسوس نہیں کیا جتنا آج کر رہا تھا. اور اندازہ لگایا کہ ایک بے بس انسان کی مدد کرنے سے جو روحانی سکون ملتا ہے وہ کسی اور کام میں نہیں.
ہمارے اردگرد ایسے بہت سے غربا ہوتے ہیں جو مستحق ہونے کے باوجود کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے. مگر مدد کرنے والے ہاتھوں کے منتظر ضرور رہتے ہیں. دو وقت کی روٹی ہی ان کا کل جہاں ہوا کرتی ہے. ایسے لوگوں کی مدد کرنی چاہیے چاہے وہ ایک وقت کھانا ہی کیوں نہ ہو.
گھر آیا تو ماں نے پوچھا ” بیٹا اتنی رات کہاں چلے گئے تھے بنا بتائے ؟”
میں بے ساختہ بولا
فرشتہ بننے گیا تھا