پرانے وقتوں میں لوگوں کو بیوقوف بنا کر مال بٹورنے کے لیے ایک گروہ ہوا کرتا تھا اس گروہ سے وابستہ لوگ “ٹھگ” کہلاتے تھے، ایسے ہی ایک ٹھگوں کے گروہ کا واقعہ ہے۔!
ایک دیہاتی بکرا خرید کر اپنے گھر جا رہا تھا کہ چار ٹھگوں نے اسے دیکھ لیا اور اُسے ٹھگنے کا پروگرام بنایا۔ چاروں ٹھگ اس کے راستے پر کچھ فاصلے پر ایک دوسرے سے انجان بن کر کھڑے ہو گئے۔ وہ دیہاتی کچھ آگے بڑھا تو پہلا ٹھگ اس سے آکر ملا اور بولا “بھائی! یہ کتا کہاں لے کر جا رہے ہو۔۔۔؟”
دیہاتی نے اسے گھور کر دیکھا اور بولا “بیوقوف تجھے نظرنہیں آ رہا کہ یہ بکرا ہے کتا نہیں۔۔۔!!!”۔
دیہاتی کچھ اور آگے بڑھا تو دوسرا ٹھگ ٹکرایا۔ اس نے کہا “یار! یہ کتا تو بڑا شاندار ہے کتنے کاخریدا۔۔؟”
دیہاتی نے اسے بھی جھڑک دیا۔ اب وہ تیز قدموں سے اپنے گھر کی جانب بڑھنے لگا مگر آگے تیسرا ٹھگ تاک میں بیٹھا تھا جس نے پروگرام کے مطابق کہا “جناب! یہ کتا کہاں سے لیا ہے۔۔۔؟”
اب دیہاتی تشویش میں مبتلا ہو گیا کہ کہیں یہ واقعی کتا تو نہیں ہے۔ اسی شش و پنج میں مبتلا وہ باقی ماندہ راستہ کاٹنے لگا۔ بالآخر چوتھے ٹھگ سے ٹکراؤ ہو گیا جس نے تابوت میں آخری کیل ٹھونکا اور بولا، “جناب! کیا آپ اس کتے کو گھاس کھلاؤ گے۔۔؟”
اب تو دیہاتی کے اوسان خطا ہو گئے اور اُس کا شک یقین میں بدل گیا کہ جب اتنے لوگ کہہ رہے ہیں تو یہ واقعی کتا ہی ہے۔ وہ اُس بکرے کو چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا اور یوں ان چاروں ٹھگوں نے بکرا ٹھگ لیا۔۔۔!
آج ہمارا معاشرہ بھی انہی طرح کے مختلف اقسام کے ٹھگوں کی یلغار میں ہے۔ یہ ٹھگ دراصل ہمارے ایمان کے ٹھگ ہیں، یہ نہیں چاہتے کہ لوگ سچائی کی راہ پر چلیں، یہ ایمانداری کے خلاف اتنی دلیلیں دیتے ہیں کہ ایک ایماندار شخص بھی مصلحت پسندی کا شکار ہو کر مخمصے کے دوراہے پر کھڑا ہو جاتا ہے۔
٭۔ یہ ناجائز منافع خوری کو حق ثابت کر کے دوسرے لوگوں کو بھی اس قبیح فعل پر مجبور کرتے ہیں۔
٭۔ یہ عبادات کو رسومات بنا کر لوگوں کو خدا سے دور کرتے ہیں۔
٭۔ یہ ہوس کو محبت کا نام دے کر نوجوان نسل کو گمراہ کرتے ہیں۔
٭۔ یہ مذہب کو کلچر سے تعبیر دے کر لوگوں کو اس سے متنفر کرتے ہیں۔
٭۔ یہ رشوت کو تحفے کا لبادہ اوڑھ کر اُخروی آگ کو دہکا رہے ہیں۔
غرض یہ ٹھگ اس جدید دنیا کے ماڈرن شیطان ہیں۔ یہ ہمارے پاس اپنی قبیح شکل میں نہیں آتے بلکہ یہ سوٹ بوٹ میں ملبوس ہو کر ہمار ے ہمدرد بن کر یہ ساری کارروائی کرتے ہیں۔
اس پوری صورتحال سے بچنے کے لیے ایک صالح مومن کو دو تدابیر اختیار کرنی ہیں۔
۔ پہلی تو یہ کہ وہ حق وباطل کے میعار کو عوام الناس کی رائے سے اخذ کرنے کی بجائے وحی خدا (قرآنِ پاک) اور مسلمہ اخلاقی اصولوں سے اخذ کرے۔
۔ دوسرا یہ کہ وہ ان ٹھگوں کو پہچانے اور ان کی باتوں کو اہمیت نہ دے ورنہ اس کا حشر بھی اُس دیہاتی جیسا ہوگا جو بکرے کو کتا سمجھ بیٹھا تھا۔