ام عثمان مظہر
تربیت کی عمر Teen age سے
پہلے پہلے ہے تو پھر ماروی تو اب آٹھ سال کی ہو رہی ہے ۔۔۔ تو کیا مجھے ابھی سے
اسے گھریلو امور کی ٹریننگ دینا ہو گی ۔۔۔؟؟
……… مگر اکثر تو یہی سننے میں آیا ہے کہ بچیوں کو پڑھائی کے
دوران اگر کام پر لگا دیا جائے تو اس چیز کا اثر پھر ان کی پڑھائی پر پڑتا ہے ۔۔۔
پھر کیا کروں ۔۔۔ ؟؟
⬅ مگر اتنا تو میں جانتی ہوں کہ
اگر یہ بڑی ہوگئی اور پھر میں نے اسے کام کاج سکھلانے کی کوشش کی تو یہ اتنی آسانی
سے نہیں سیکھے گی ۔۔۔
ظاہر ہے ۔۔۔ نوجوانی کی عمر میں جب جذبات میں شدت بڑھ چکی ہوتی ہے تو
پھر سیکھنے سکھلانے کا عمل مشکل ہوگا ہی ۔۔۔
وہ صبح ہی صبح گھر کی سیٹنگ کر رہی تھی ۔۔۔ بچے ایک گھنٹہ پہلے اسکول
جا چکے تھے اور تنہائی نے آج اس کے سامنے ماروی کی گھریلو امور میں مہارت کا مسئلہ
لا کھڑا کیا ۔۔۔
ثانیہ تم یقین کرو ۔۔۔ یہ ایم بی اے اور دوسری تیسری ڈگریاں تو
بالکل فضول ہیں ۔۔۔ کوئی فائدہ نہیں ان کا ۔۔۔
☝
یہ اجالا تھی ۔۔۔ ثانیہ کی چچا زاد ۔۔۔
اچھا ۔۔۔!! تو کیا تم نے سب لکھا پڑھا بھلا دیا ؟؟ ثانیہ نے سوال کیا
۔۔۔
لو ۔۔۔ وہ تو شادی کے شروع میں ہی بھول گیا تھا جب جوتے پڑے تھے ۔۔۔ ہا
ہا ہا ہا ۔۔۔
دونوں کے منہ سے ایک ساتھ ہی ہنسی کے فوارے پھوٹ پڑے ۔۔۔
چھوڑو ثانیہ ۔۔۔ !! یہ مردوں والی ساری تعلیم فضول ہے ۔۔۔ اصل میں تو گھر
کی ٹریننگ ہی اصل چیز ہے ۔۔۔ جو میرے پاس نہیں تھی ۔۔۔ سو پھر جوتے تو بنتے تھے نا
۔۔۔!!
وہ کچھ زیادہ ہی حق گو تھی جو اپنے پھوہڑ پن کے اظہار میں ذرا بھی پس و
پیش سے کام نہیں لے رہی تھی ۔۔۔
وہ کچھ دیر یونہی ثانیہ سے ادھر اُدھر کی باتیں کرتی رہی اور پھر سلام
دعا کے بعد فون رکھ دیا ۔۔۔
نہیں نہیں ۔۔۔ اجالا کچھ بھی کہے ۔۔۔ مجھے ماروی کی تعلیم عزیز ہے ۔۔۔
میری پہلی ترجیح اس کی تعلیم ہے ۔۔۔ ہاں تعلیم مردوں والی نہیں دلواؤں گی ۔۔۔
اسلامیات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرے تو بہت بہتر ۔۔۔ ورنہ سائیکالوجی، ہوم اکنامکس
یا ڈاکٹری میں سے کسی شعبے میں تو ضرور اسے بہت آگے جانا چاہیئے ۔۔۔
مگر ۔۔۔ گھر داری ۔۔۔!!
صرف چار سال کے بعد یہ Teen age میں داخل ہو جائے گی ۔۔۔ پھر عمر کے جذباتی ترین دور میں اس کے
گھریلو امور کے حوالے سے میں تربیت کیسے کروں گی ۔۔۔؟؟
اچھا۔۔۔!! کچھ تو کرنا ہی ہوگا ۔۔۔
جو ہے راہِ عمل میں گامزن محبوبِ فطرت ہے
بچوں کو گھریلو امور میں ماہر کیسے بنایا جا سکتا ہے جب ان کے ارد
گرد نوکر چاکر، ملازم پھر رہے ہوں ۔۔۔ ایسی صورتحال میں تو کوئی ایسی صورت بنتی ہی
نہیں کہ بچہ خود اٹھ کر پانی بھی پیے ۔۔۔
ماں خود عیش پسندی کی زندگی گزارے ۔۔۔ سہل پسندی جس کا شیوہ ہو ۔۔۔
گھریلو امور کی انجام دہی سے خود جس کی جان جاتی ہو ۔۔۔ کیسے ممکن ہے کہ اس کی
اولاد محنتی اور جفاکش ہو ۔۔۔؟
یہاں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ گھر میں ملازمہ کا ہونا اسلام
کی رو سے ممنوع تو نہیں ۔۔۔ مگر بہرحال یہ امر ایسا پسندیدہ ہوتا تو امہات
المومنین اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے گھر کے کام ملازماؤں سے ہی
کرواتیں ۔۔۔
زینت ۔۔۔!! سنو میں محسوس کرتی ہوں کہ جب سے تم میرے گھر میں کام کرنے
کے لیے آ رہی ہو میں بہت سست ہو گئی ہوں ۔۔۔ یقین مانو سارا دن جسم سے سستی دور
نہیں ہوتی ۔۔۔ سارا دن عجیب بے زار سی رہتی ہوں ۔۔۔ طبیعت فریش نہیں ہوتی ۔۔۔ تم
یوں کرو کہ اب میرے گھر سے کام کی چھٹی کرو ۔۔۔ مجھے خود کام کرنے دو ۔۔۔
زینت تھوڑا پس و پیش کرنے لگی ۔۔۔ اسے پندرہ دن کی ایکسٹرا
تنخواہ کا لالچ دے کر کام چھوڑنے پر رضا مند کر لیا ۔۔۔
زینت کے حصے کے کام اگرچہ ثانیہ کے سر پر آن پڑے ۔۔۔ مگر اگلے ہی چند
دنوں میں ثانیہ نے محسوس کیا کہ ملازمہ کے نہ آنے سے گھر کے تمام افراد کے ہاتھ
کچھ نہ کچھ چلنے لگے ہیں ۔۔۔
زکریا جو شروع ہی سے دوسرے بچوں کی نسبت صفائی اور گھر کی سیٹنگ
کا زیادہ شوقین تھا ۔۔۔ جس کمرے میں جاتا اسے سیٹ کر کے ہی نکلتا ۔۔۔
ایک اور خاص کام جو کیا وہ
باورچی خانے میں ایک طرف ذرا نیچا سنک لگوانے کا کیا ۔۔۔ چھوٹے چھوٹے برتن ماروی
کو دھونے سکھا دیے ۔۔۔
سکھلانا بھی ایک فن ہے جو ہر کسی کو نہیں آتا ۔۔۔ اگر سکھلانے والا
حکمت سے سکھائے تو سیکھنے والے کے لیے خود بخود راستے کھلتے چلے جاتے ہیں ۔۔۔
دیکھو ماروی برتنوں کو دھونے کے لیے کچھ سٹیپس ہوتے ہیں ۔۔۔
ثانیہ نے تقریباً چھوٹے چھوٹے دس برتن سنک میں رکھے ۔۔۔
ماروی سب سے پہلے آپ ان سب برتنوں کو ہلکا پانی کھول کر ان پر
موجود چکنائیاں اسپنچ سے اتار کر ایک طرف جمع کیجیے ۔۔۔
دوسرے سٹیپ میں ان دس برتنوں کو برتن دھونے والے اسپنچ سے صابن
لگانا ہے ۔۔۔ چھوٹا باؤل لے کر پہلے اس کے سیدھے طرف تین مرتبہ اسپنچ گھمانا ہے
۔۔۔ پھر الٹی طرف اسپنچ گھمانا ہے ۔۔۔
تیسرے سٹیپ میں ان سب برتنوں کو دھونے کا آغاز کرنا ہے جنہیں
صابن لگا لگا کر سائیڈ پر رکھا گیا تھا ۔۔۔ دھونے کے لیے پہلے برتن کو پانی کے
نیچے لے جا کر پہلے سیدھی طرف تین مرتبہ ہاتھ گھمانا ہے پھر الٹی طرف تین مرتبہ
ہاتھ گھمانا ہے ۔۔۔ اور پھر ایک مرتبہ سیدھی طرف اور الٹی طرف سے کھنگالنا ہے ۔۔۔
جب سارے برتن دھو لیں تو پھر انہیں سٹینڈ میں لگا کر نئے دس برتن سنک
میں رکھنے ہوں گے ۔۔۔
سٹیپس سکھانے کے بعد ماروی شروع دن سے ہی ایسے صاف ستھرے برتن دھونے
لگی کہ جیسے بڑے بھی نہیں دھویا کرتے ۔۔۔
کپڑے دھونے کا کام بھی بہت آسان ہوگیا ۔۔۔ وہ اس طرح کہ اس کے
لیے ہفتے والا دن رکھا گیا یعنی بچوں کی چھٹی والا دن ۔۔۔ ثانیہ کی نگرانی میں
تقریباً سارے کپڑے بچے ہی دھوتے ۔۔۔ بچوں سے کپڑے پھیلانے کا کام لینے کے لیے ایک
ذرا نیچی تار ۔۔۔ پہلے لگی ہوئی تاروں کے قریب ہی بندھوا لی ۔۔۔
بچے خوشی خوشی انجوائے کرتے
ہوئے ثانیہ کی ہدایات کے مطابق کپڑے دھونے اور پھیلانے کا کام کرتے رہے ۔۔۔
غرض کپڑے دھونا۔۔۔ صفائی کرنا
۔۔۔ برتن دھونا ۔۔۔ کپڑے سمیٹنا ۔۔۔ غرض ہر کام میں ننھے ننھے ہاتھوں کی مدد شامل
ہوگئی ۔۔۔ ایک تو پیسوں کی بچت ہوئی تو دوسرا بچوں کی سہل پسندی اور نرم مزاجی پر
زینت کو ہٹانے سے چوٹ پڑی ۔۔۔
وہ ننھے ننھے بچوں کو اتنی خوبصورتی سے کام کرتے دیکھتی تو حیران رہ
جاتی اور سوچتی کہ بچے کیسے خوبصورت ساتھی ہیں جنہیں خواہ مخواہ ہی ہم لوگ ضائع کر
دیتے ہیں ۔۔۔
پڑھائی لکھائی کے ساتھ ساتھ اگر وہ روزانہ ایک گھنٹہ بھی گھر کے کاموں
کو دے دیں تو اس سے نا صرف ماں کو مدد ملتی ہے بلکہ بچوں بھی غیر ضروری اور غیر
صحت مندانہ سرگرمیوں سے بچے رہتے ہیں ۔۔۔
⬅ مزید یہ کہ چھوٹے بچوں سے کام
لینے سے ان کی جسمانی ایکسرسائز ہو جاتی ہے اور Teen age تک پہنچنے تک وہ بہت سے ایسے کاموں میں ماہر ہو چکے ہوتے ہیں کہ
جن سے لاعلم ہونے کی بنا پر اکثر اوقات بہت بڑی بڑی تکالیف اٹھانی پڑتی ہیں ۔۔۔
کام اپنا ہے صبح و شام چلنا
چلنا چلنا ______ مدام چلنا
بہرحال زندگی کے شب و روز صدا ایک سے نہیں رہتے ۔۔۔ کبھی دھوپ کبھی
چھاؤں ۔۔۔ اتار چڑھاؤ ہم میں سے ہر ایک کی زندگی کا حصہ ہے ۔۔۔ لہٰذا اگر کسی بھی
عورت کو ملازمہ کے بغیر اپنے فرائض سرانجام دینے ہوں تو اس کے لیے محنت، توجہ اور
بہترین پلاننگ کے ساتھ ساتھ روحانی قوت اور خاص مدد بھی درکار ہوتی ہے ۔۔۔
حَسْبِیَ اللّٰہُ لَا اِلَہ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ
رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم
حدیث کے مطابق جس شخص نے یہ دعا صبح سات مرتبہ پڑھی اس کے شام تک کے
کاموں کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ لے لیتے ہیں ۔۔۔ اور جس شخص نے شام کو سات مرتبہ
پڑھی تو اس کے صبح تک کے کاموں کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ لے لیتے ہیں ۔۔۔
اس دعا کے پڑھنے سے واقعی ناصرف حوصلہ بلند ہو جاتا ہے بلکہ بڑی سے بڑی
ذمہ داری ۔۔۔ جیسے مہمانوں کا آجانا یا کوئی گھریلو تقریب ۔۔۔ تو ایسے موقعوں پر بھی
گھبراہٹ نہیں ہوتی ۔۔۔
اس کے علاوہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاذمہ کے لیے درخواست
کرنے پر اپنی بیٹی کو جو وظیفہ سکھایا ۔۔۔ یعنی رات کو سوتے وقت 33 مرتبہ سبحان
اللہ، 33 مرتبہ الحمد للہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر پڑھنا. وہ اسے اتنے یقین سے
پڑھتی کہ سونے سے پہلے ہی اسے محسوس ہونے لگتا کہ اس کے بدن کی تھکاوٹ اتر
گئی ہے.
آئے ہائے خدا کی بندی ۔۔۔ کوئی ملازمہ رکھنا گناہ کا کام ہے کیا کہ تم
یوں اپنی جان پر اورچھوٹے چھوٹے بچوں پر ظلم کر رہی ہو ۔۔۔ خبردار جو ماروی سے
برتن دھلوائے ہوں ۔۔۔ یہ ثانیہ کی بڑی نند تھی جنہیں بھتیجی کی مشقت کا غم کھائے
جا رہا تھا ۔۔۔
باجی یہ لمبی ہو جاتی ہیں نا
لڑکیاں ۔۔۔ تو تب ہدایات ماننے کی بجائے آنکھیں دکھاتی ہیں ۔۔۔ اسی لیے آپ
کی بھتیجی کو اسی عمر میں کام پر لگا دیا ۔۔۔ اس نے احترام سے کہا تو باجی منزہ
اپنی چودہ سالہ ردا کی طرف دیکھتے ہوئے شرمسار سی بولیں ۔۔۔
ہاں ثانیہ یہ تو تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔۔
انسانی زندگی میں جو
دن چڑھتا ہے اسے ڈھلنا ہی ہوتا ہے ۔۔۔ منزلیں اللہ کی مدد سے ہی آسان ہوا کرتی ہیں
۔۔۔ سب سے بہترین سہارا تو اللہ ہی کی جانب سے ہوا کرتا ہے ۔۔۔ وہ اپنے پیارے
بندوں کی خاطر تو قرآن کریم کی ایک آیت مبارکہ کے مفہوم کے مطابق فرشتے نازل فرماتا
ہے ۔۔۔ جو ان کے ہر طرح کے دنیاوی کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں ۔۔۔ ان کے کام
سیدھے کرنے میں ساتھ دیتے ہیں ۔۔۔ اور پھر آخرت میں بھی ان کے ہر طرح سے مددگار
ہوتے ہیں ۔۔۔
فضاۓ بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
بدر کی فضا میں کیا تھا ۔۔۔ توکل علی اللہ تھا ۔۔۔ جوش و جذبہ تھا ۔۔۔
خلوصِ نیت تھا ۔۔۔ اپنی جانوں سے زیادہ مقصد عزیز تھا ۔۔۔ نگاہیں آسمان کی جانب
تھیں ۔۔۔ دعاؤں کی کثرت تھی ۔۔۔
✨ ہم عورتوں نے کب جنگیں لڑ کر فضائے
بدر پیدا کرنی ہوتی ہے ۔۔۔؟ ہمارے لیے تو عمل کا میدان ہمارا گھر ہی ہے ۔۔۔
✨ یہیں پر اپنے سب جذبوں کا اظہار
کرنا ہوگا ۔۔۔
✨ یہیں
پر زمانے کی اونچ نیچ کو اپنی جان پر سہنا ہوگا ۔۔۔
✨ یہیں پر
اللہ پر توکل کرتے ہوئے زندگی کی جنگ کو بہادری سے لڑنا ہوگا ۔۔۔
✨ یہیں پر
اپنی نیتوں کا خلوص خدمت خلق کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرنا ہوگا ۔۔۔
خود گھر کے کام سر انجام دیتے ہیں ہوئے سب سے حیران کن بات ثانیہ کے
سامنے یہ آئی کہ جتنی زیادہ وہ گھریلو امور میں انوالو ہوتی اتنی زیادہ اللہ
تعالیٰ کی قربت ملتی ۔۔۔
گھریلو مشقتیں اور کٹھنائیاں تو واقعی اللہ سے قربت کا ذریعہ ہوتی ہیں
۔۔۔ مگر یہ سعادت گھر کے کاموں کی انجام دہی کے دوران زیادہ سے زیادہ حاصل ہوتی ہے
۔۔۔ یہ ثانیہ کو معلوم نہ تھا ۔۔۔ یا پھر یہ گھر کے کاموں کے دوران اس کی زبان پر
جاری رہنے والا درودِ پاک تھا کہ جو اس کے دل کو ربِّ کائنات سے جوڑے ہوئے تھا ۔۔۔
یا پھر وہ دعائیں تھیں جو کام کرتے ہوئے اس کی زبان پر آجاتیں ۔۔۔
اللہ جی! یہ سب مشقتیں آپ کے لیے ہی سہہ رہی ہوں۔۔۔ ایک دن میں آپ کے
پاس چلی آؤں گی ۔۔۔
⬅ آپ اس دن سے پہلے مجھے بخش دیجیے ۔۔۔
اللہ میاں جی! میں آپ کے بغیر زیادہ دیر نہیں رہ سکتی ۔۔۔
یہ جدائی تو بڑی بھاری ہے ۔۔
اللہ جی! میں جانتی ہوں کہ میرے آنے میں تھوڑا ہی وقت ہے ۔
۔۔ اے اللہ! آپ مجھے ضائع ہونے سے بچا لیجیے ۔۔۔
میری قبر کو پھولوں سے بھر دیجیے ۔۔۔
اچھے سے اچھے ساتھیوں سے بھر دیجیے ۔۔۔
اللہ جی! میرا مقدر ایسا کر دیجیے کہ مرتے ہی جنت الفردوس میں پہنچ
جاؤں ۔۔۔ اور حیران رہ جاؤں ۔۔۔
وہ یونہی تر آنکھوں کے ساتھ رب سے مناجات میں مصروف تھی ۔۔۔ اور ساتھ
ساتھ بچوں کی آمد کا وقت قریب محسوس کرتے ہوئے دسترخوان پر برتن چن رہی تھی جب وہ
ننھے ننھے پھول اپنے باپ کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے ۔۔۔ تو وہ بے اختیار پکار اٹھی
۔۔۔
پھلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بے میں نے پالے ہیں
مصنفہ کی جانب سے درخواست ہے کہ اگر آپ کو یہ تحریر ماؤں کے لئے مفید
محسوس ہوئی ہے تو براہ مہربانی اسے آگے بھیجیے اور اس صدقہ جاریہ میں شامل ہوجائے۔