زندگی مہلت دے تو ہر بچے نے جوان اور جوان نے بوڑھا ہونا ہے۔زندگی کے ہر دور کے اپنے چیلنجز ہوتے ہیں۔ بڑھاپےکے چیلنجز بھی بہت بڑے ہیں۔اس دور میں اپنوں کی طرف سے ناقدری، بیماریاں، فراغت اور حساسیت بہت بڑھ جاتی ہے۔قوت برداشت کم ہونے کی وجہ سے اخلاقی کمزوریاں بھی سطح پر نظر آنے لگتی ہیں۔ اکثر اوقات بڑھاپے میں لوگ productive یا فعال نہیں رہتے۔ وہ اپنا وقت
مسلسل ٹی وی دیکھنے،
سوتے رہنے،
آتے جاتے سب پر تبصرہ کرنے،
اپنی بیماری کی باتیں،
غیبتیں کرنے ،
یہ توقع رکھنے میں کہ سب میرے آگے پیچھے پھریں گے،
حکم میرا چلے گا کام دوسرے کریں گے،
اپنی جوانی کی مثالیں دینے،
بیٹے اور بہو سے یا جن کے ساتھ رہ رہے ہیں ان سے بیزار رہنے،
اور سوچے سمجھے بغیر بولنے میں ضائع اور برباد کر دیتےہیں۔ ۔ بہتر ہے کہ انسان زندگی کے اس آخری دور کی تیاری پہلے سے کر لے۔
جوں جوں عمر آگے بڑھتی جائے چند اسباق ازبر کر لئے جائیں اور انکی مشق ابھی سے شروع کر دی جائے تو اچھا ہے۔۔۔۔کیونکہ یہ مشورے زندگی کے ہر دور کے لئے بہرحال فائدہ مند ہیں۔
1۔ عبادت کی کثرت تاکہ اللہ کافی رہے اور انسانوں سے گلہ نہ رہے۔
2۔ خاموشی کی عادت تاکہ عزت کے ساتھ وقت گزر جائے۔
3۔ صبر اور برداشت تاکہ بیماریوں اور اعضاء کی کمزوری کا مقابلہ ہمت سے کر سکیں۔
4۔ ہر وقت ہر حال میں شکر کرنا اور اپنے اردگرد کے لوگوں میں بھلائ اور خیر ڈھونڈنا۔
5۔کوئی مثبت مصروفیت تاکہ انسانوں کے لئے فائدہ مند رہیں چاہے وہ اپنے
ہوں یا غیر۔ وہ صدقہ جاریہ بھی بنے گی اور ہمیشہ آپ کا تذکرہ اچھے الفاظ کے ساتھ کیا جائے گا۔
اگر اس وقت میں خدا صحت اور فراغت دے تو وقت کا بھرپور استعمال کریں اپنے پوتے پوتیوں یا نواسے نواسیوں کے ساتھ خوبصورت تعلق بنائیں اور اپنا وجود ایسا بنائیں کہ آپ کی اگلی نسلیں آپ کے پاس بیٹھ کر سکون محسوس کریں اور زندگی گزارنے کی دانش سیکھ سکیں۔