میں ایک عام سے مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی جہاں نماز تو بچوں کو سکھائی جاتی تھی لیکن اسکی روح نہیں……..!
تھوڑا شعور آیا تو کہیں پڑھا کہ وہ نماز جس میں دل حاضر نہیں ہوتا پڑھنے والے کے سلام پھیرتے ہی کالے کپڑے میں لپیٹ کر منہ پر مار دی جاتی ہے……!
اس دور میں نماز کی پابندی تو جیسے کیسے کرتی تھی لیکن یوں لگتا کہ ہر سلام کے ساتھ میری نماز کالے کپڑے میں میرے منہ پر مار دی جاتی ہے……….!!!
لگوا دیتی ہوں کہ “میں حاضر” انکی یہ بات مجھے اچھی لگی…….!
پھر کیا تھا جو نمازیں میں رٹے رٹائے الفاظ کو دہراتے اُٹھک بیٹھک کی صورت ادا کرتی تھی اب حاضری کی نیت سے پڑھنے لگی اور دعا کرتی یا اللہ دل کے خیالات تو میرے بس میں نہیں، میں تو تیری ادنیٰ و حقیر عاجز سی بندی ہوں بس میری حاضری قبول فرما لے…….!
پھر ایک دن میں نے حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہ کے بارے سنا کہ وہ نماز پڑھتیں تو اللہ سے دعا کرتیں کہ مالک نماز میں میرے دل کو حاضر کر دے یا میری یہ نماز ایسے ہی قبول کر………!
یہ سننا تھا کہ ان الفاظ نے میرے دل کی آنکھوں پہ، مدتوں سے پڑے پردے کو جیسے نوچ پھینکا ہو، پہلی دفعہ یہ احساس ہوا کہ میری حاضریاں تو ساری غیر حاضریاں ٹھہریں…..!!!!!
پہلی دفعہ دل اس خوف سے کانپا کہ اب کیا ہوگا؟ میں حقیر و ناچیز کیسے ان حاضریوں کو یقینی بناؤں…….؟
اور پہلی بار میں نے نماز میں کھڑے ہوتے ہوئے اپنے دل سے پوچھا “کیا تو حاضر ہے……….؟”
اگر کہیں اللہ نے تجھ سے پوچھ لیا کہ کیا حاضری اسی کو کہتے ہیں تو کیا جواب دو گی……..؟
جو حاضری لگوانے، میں دن میں پانچ بار اسکے دربار میں جاتی ہوں کیا یہ حاضری بھی ہے…….؟
اب حال یہ ہے کہ میں حاضر بھی ہوتی ہوں، حاضری کے وقت حاضر رہنے کیلئے اپنے ادھر ادھر پھسلتے دل کو بھی حاضر رکھنے کی کوشش کرتی ہوں……!
اور ساتھ رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہ کی دعا بھی دہراتی ہوں کہ “اے دلوں کو پلٹ کرنے والے” میرے دل کو حاضر کردے یا پھر میری اس نماز کو ایسے ہی قبول کر…….. الھم آمین
کیا آپ بھی ایسا کرتی ہیں……؟؟