حدیث میں جو ممانعت ھے۔ کہ کوئی عورت اپنے باپ کے سوا کسی اور کی طرف اپنی نسبت نہ کرے۔ اس سے مراد یہ ھے۔ کہ وہ
اپنے باپ کی جگہ کسی اور کواپنا باپ قرار نہ دے ۔
باقی عورت اگر اپنی نسبت اپنے شوہر کی طرف کرتی ھے۔ تو وہ شوہر کو اپنا باپ قرار نہیں دے رھی ھوتی۔ بلکہ اس نسبت سے اس کا مقصد یہ ھوتا ھے کہ میں فلان کی بیوی ھوں۔ یعنی وہ شوہر کے حوالے سے اپنا تعارف کرا رھی ھوتی ھے۔
باقی عورت کا اپنے شوہر کی طرف نسبت کرنا کیا درست ھے۔تو اس کا جواب ھے کہ جی ہاں درست ھے کیونکہ احادیث میں امھات المومنین کے تذکرے میں ان کی رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت ملتی ھے۔مثلا عن عائشة زوجة النبی ﷺ بلکہ خود قرآن نے بھی حضرت آسیہ سلام علیھا کا ذکر کرتے ھوۓ ان کی نسبت ان کے شوہر(فرعون) کی طرف کی ھے۔
*امرات فرعون* اذقالت رب ابن لی عندک بیتا فی الجنة(سورہ التحریم ۔11 )