سوال یہ تھا کہ
جب ھمارا یقین ھے کہ اللہ پاک کے حکم کے بغیر کچھ نھیں ھو سکتا۔ جب ھمارا یقین ھے کہ اللہ پاک نے ہر انسان کے لیۓ موت کا وقت جگہ اور موت کی وجہ مقرر کی ہے کہ کون کہاں اور کس حالت میں مرےگا۔ تو پھر ایک قاتل کو ھم قاتل کیوں کھتے ہیں۔ خالانکہ اللہ پاک نے مقتول کی موت اس قاتل کی ہاتھوں لکھی ہوئ ہوگی تو پھر اللہ پاک کے ہاں وہ قاتل کیوں گناہگار ہے۔ جبکہ ہمارا یقین بھی ہے کہ اللہ پاک کے حکم کے بغیر کچھ نھیں ھو سکتا
یہ سوال تقدیر کے متعلق ھے۔
تقدیر اللہ کے علم کا نام ھے۔ اللہ اپنے ازلی ابدی علم کی بنا پر قبل از وقت صحیح طور پر معلوم کر لیتے ھیں۔ اور اسکو اس بندہ کی تقدیر میں لکھوا دیتے ھیں ۔
لھذا جو تقدیر میں لکھا ھوتا ھے ۔اس لکھے ھوئے سے مجبور ھو کر بندہ وہ کام نہیں کرتا بلکہ جو کام بندہ اپنے اختیار سے کرنے والا ھوتاھے اس کو اللہ نے اپنے علم کی بناء پر قبل از وقت جان کر لکھوا دیا ھے۔
لھذا تقدیر کی وجہ سے کوئی مجبور نہیں ھوتا بلکہ اپنے اختیار سے نیکی یا گناہ کرتا ھے جب اپنے اختیار سے کرتا ھے تو جزا وسزا کا مستحق بھی ھوتا ھے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے اسی کے متعلق سوال کیا کہ انسان مجبور ھے یا باختیار تو آپ نے اس سے فرمایا ٹانگ اٹھاؤ تو اس نے ٹانگ اٹھالی پھر آپ نے فرمایا کہ دوسری ٹانگ بھی اٹھاؤ تو اس نے کہا کہ وہ تو میں نہیں اٹھا سکتا تو آپ نے فرمایا کہ بس
انسان اتنا باختیار اور اتنا مجبور۔
یعنی نہ مکمل طور پر باختیار ھے اور نہ ھی مکمل طور پر مجبور۔
یہ انسان کو جو تھوڑا بہت اللہ کی طرف سےاختیار دیا گیا ھے نا ۔اسی کی بناء پر انسان سزا وجزا کا مستحق ٹھہرتا ھے
مفتی محمود الحسن لاہور