‘آخر ربایا سود میں ایسی خرابی کیا ہے، قرآن پاک اس کو حرام اور کاروبار کے منافع کو حلال کرتا ہے؟” ڈاکٹر صاحب نے تب یہ جواب دیا تھا۔
”سود اسلام کی بنیاد کے خلاف ہے۔ ہمارا دین جن کچھ بنیادوں پر کھڑا ہے اس میں سے ایک انسانی ہمدردی اور مدد کا اصول ہے… اگر مسلمان ایک دوسرے کے بھائی اور مددگار ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ضرورت کے لئے اپنے مسلمان بھائی کو دی جانے والی رقم کو منافع کے ساتھ مشروط کردے… ہمارا دین اللہ تعالیٰ کی برتری کے علاوہ دنیا میں کسی اور سے ویسی عقیدت اور پرستش کے خلاف ہے… روپیہ صرف دنیاوی زندگی کو چلانے کا ذریعہ ہے، اس روپے کو ہم اگر اپنا مقصد حیات بناکر سرمایہ داری کے اصول اپنالیں گے تو ہم اس انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے سے ہٹا کر دولت کو اس مرتبے پر فائز کردیں گے…
اگر قرآن میں اللہ فرماتا ہے کہ سود کا کاروبار کرنے والا اللہ اور اس کے نبیۖ سے جنگ کررہا ہے… تو دولت کا بت بناکر انسانوں کی ضرورتوں اور مجبوریوں کو استعمال کرتے ہوئے ان کا استحصال کرنا دنیا میں اللہ کے اس نظام کو چیلنج کرنے کے برابر ہی ہے جس میں اللہ انسان کو ایک دوسرے کی فی سبیل اللہ مدد کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اگر اللہ کو ایک ماننے والا اور نبی کریم کو آخری پیغمبر ماننے والا بھی صرف خدا خوفی اور خدا ترسی کے لئے ایک دوسرے مسلمان کو منافع لئے بغیر کچھ دینے پر تیار نہیں تو مسلمان اور کافر میں فرق کیا ہے۔ کافر دولت کے حصول اور اس کی بڑھوتری کے لئے بہت سارے خدا پوجتا ہے۔ مسلمان تو اللہ کی عبادت صرف اللہ کی خوشنودی اور اخروی زندگی کے لئے کرتا ہے۔ وہ تو رزق میں کشادگی اور نعمتوں کے عطا کئے جانے کو اللہ کی عبادت کے ساتھ مشروط نہیں کرتا۔”
اسے ڈاکٹر سبط علی کی ایک ایک بات یاد تھی کیوں کہ ان کے الفاظ کئی راتوں تک اس کے لئے باز گشت بنے رہے تھے۔
”جب انسان کا ایمان اللہ کی ذات پر کمزور ہوتا ہے اور اس میں توکل نہیں ہوتا تو پھر اس کا اعتقاد دنیاوی چیزوں میں بڑھ جاتا ہے… روپے میں… مال و زر میں… بچتوں اور جمع پونجیوں میں… وہ اللہ کی ذات کو باہر رکھ کر بیٹھ جاتا ہے اپنا مستقبل پلان کرنے… اتنا پیسہ جوڑوں گا تو اس سال یہ لوں گا… کسی رشتہ دار یا ضرورت مند کی مدد کردوں گا تو پھر قرض واپس نہ ملنے پر اتنا پیسہ ڈوب جائے گا… اتنے سال میں گھر بنالینا چاہیے… کون سے سال کون سی گاڑی ہونی چاہیے… بچوں کو پڑھانے کے لئے بھی پائی پائی جوڑنی ہوگی…بیٹیوں کی شادی کے لئے بھی پیسہ ہاتھ میں ہونا چاہیے…بیماری کا علاج بھی پیسے سے ہوتا ہے… ان ساری چیزوں کے بارے میں سوچتے سوچتے انسان کو پتا ہی نہیں چلتا، وہ کب اللہ کی ذات کو پیچھے کرتے روپے کو آگے لے آتا ہے۔
روپے سے ایسا رشتہ جوڑ بیٹھتا ہے کہ اس سے علیحدگی کا تصور بھی نہیں کرپاتا… اس کی افزائش اور بڑھوتری پر خوشی سے پاگل ہوا جاتا ہے۔ اس سے اثاثے بنالینے پر اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی اور مستقبل کو محفوظ سمجھتا ہے… یہ اس پیسے کی حرص کا شیطانی اثر ہے جس سے انسان کولگتا ہے دنیا کا سسٹم چلتا ہے… حالانکہ دنیا کا نظام تو اللہ چلاتا ہے… وہ لمحہ بھر میں سالوں کی جمع پونجیاں خاک کردے… اللہ کو نظر انداز کرکے حرام کے ذریعے بنائے جانے والے اثاثوں کو انہیں کے ہاتھوں تباہ و برباد کردے… پھر انسان کیا کرے گا…؟”
وہ سارے جواب اسے آج بھی یاد تھے جنہوں نے اسے تب بے چین کیا تھا لیکن قائل نہیں، وہ مغربی تہذیب اور تعلیم جس میں اس نے ساری عمر پرورش پائی تھی، وہ ترقی کو انسان کی منزل قرار دیتی ہے اور اس منزل کے حصول کے لئے قانونی اور غیر قانونی کی تفریق تو کرتی تھی… حرام اور حلال کی نہیں… وہ مغربی معاشرہ جو سود کے ستونوں پر کھڑا اسی کا بیچ بورہا تھا… اسی کا پھل کھا رہا تھا، وہ ”منافع” کے اس طریقے کو جائز قرار دیتا تھا جو اخلاقیات اور انسانیت کے بنیادی اصولوں کی تذلیل اور تضحیک کرکے کھڑا کیا گیا تھا۔
”مغربی مالیاتی نظام یہود نے قائم کیا تھا اور دنیا کی معیشت کو اس مالیاتی نظام نے آکٹوپس کی طرح جکڑا ہوا ہے۔ دنیا میں مالیاتی نظام کے وہ بانی تھے اور اس کو مؤثر ترین بنانے میں قابل رشک حد تک کامیاب… وہ سود جو بنی اسرائیل کے زوال اور اس پر آنے والے بار بار کے عذاب کی وجہ بنتا رہا تھا، وہ آج بھی نہ صرف اس سے چپکے ہوئے ہیں بلکہ اس کو مسلمان قوم کے اندر تک اس طرح پھیلا چکے ہیں کہ اب یہ سودی نظام دنیا میں کسی بھی خطے میں بسنے والے مسلمان کے خون اور خمیر میں رچنے بسنے لگا ہے… وہ اس کو صحیح اور جائز قرار دینے کے لئے توجیہات دینے لگے ہیں اور یہ وہ امت محمدی تھی جن کے لئے قبلہ بدلا گیا تھا اور جنہیں بنی اسرائیل سے امامت لے کر دی گئی تھی…”
ڈاکٹر سبط علی کی وہ سب باتیں اس کے ذہن پر تب کنکریاں برساتی تھیں تو آج ہتھوڑے برسارہی تھیں۔
آبِ حیات