ایک دفعہ کا
ذکر ہے کہ ایک آدمی سمندر سے ایک مچھلی پکڑ کے لایا اور اسے اپنے گھر میں موجود
کنویں میں ڈال دیا۔
اس کنویں میں
مینڈکوں کی حکومت تھی۔ مینڈکوں نے جب ایک نئی چیز دیکھی تو پہلے تو وہ ڈرے گھبرائے
دور دور گھومنے لگے۔ آخر ایک بڑے مینڈک نے ہمت دکھائی اور مچھلی کے تھوڑا قریب گیا
اور پوچھا: تم کون ہو ؟
میں مچھلی ہوں
! مچھلی نے جواب دیا۔
مینڈک : تم
کہاں سے آئی ہو؟
مچھلی : سمندر
سے۔
مینڈک : وہ
کیا ہوتا ہے؟
مچھلی : وہ
بہت بڑا ہوتا ہے۔ اور اس میں پانی ہوتا ہے.
مینڈک نے کہا
: کتنا بڑا ؟
مچھلی : بہت
بڑا۔
یہ سن کر
مینڈک نے اپنے گرد چھوٹا سا گول چکر کاٹا اور پھر مچھلی سے پوچھا : کیا اتنا بڑا
ہوتا ہے ؟
مچھلی مسکرائی
اور بولی نہیں بڑا ہوتا ہے۔
مینڈک نے
تھوڑا بڑا چکر لگایا اور کہا اتنا بڑا ؟
مچھلی ہنسی
اور کہا نہیں بڑا ہوتا ہے۔
مینڈک اب جوش
میں آ گیا اور اس نے آدھے کنویں کا چکر لگا کر مچھلی کی طرف دیکھا، جیسے پوچھ رہا
ہو کہ اب ؟
مچھلی نے پھر
نفی میں سر ہلایا۔
اب تو مینڈک
نے پوری رفتار سے پورے کنویں کا چکر لگایا اور مچھلی سے کہا کہ اب اس سے بڑی تو
کوئی چیز نہیں ہے۔
مچھلی مسکرائی
اور مینڈک سے کہا : تمہارا قصور نہیں ہے کہ تمہاری سوچ ہی اس کنویں تک ہے۔
اسی طرح ہمارے
معاشرے میں کُچھ لوگ بھی ایسے ہوتے ہیں جن کی سوچ اس کنویں کے مینڈک کے برابر ہوتی
ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ وہی اپنے عقائد اور نظریات میں سچے اور کھرے ہیں۔ ایسے لوگوں
سے لڑائی یا بحث کرنے کی بجائے ان کو ان کے حال پر چھوڑیں اور ان کی سوچ پر مسکرا
کر آگے نکل جائیں۔