رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ اور ہر جگہ بچوں سے محبت اور شفقت سے پیش آتے۔ جب وہ سفر سے واپس آتے تو بچے ان کے استقبال کے لئے دوڑتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے پیار کرتے، محبت کرتے، بعض کو اپنے ساتھ سوار کرلیتے اور اپنے اصحاب سے بھی کہتے دوسروں کو وہ سوار کرلے۔ اور اسی حالت میں وہ شہر کے اندر لوٹتے۔
ایک صاحب لکھتے ہیں: ماں باپ کی نظر میں میری کوئی اہمیت نہ تھی۔ جب میں بچا تھا تو ہمیشہ میری توہین اور سرزنش کرتے رہتے۔ کسی کام میں مجھے شریک نہ کرتے۔ اور اگر میں کوئی کام انجام دیتا تو اس میں کیڑے نکالتے۔ اور دوستوں کے سامنے میری بے عزتی کر دیتے۔ جس سے میں احساس کمتری کا شکار ہو گیا اور اپنے آپ کو ایک فضول چیز سمجھتا ہوں اور کوئی بھی اپنے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے ڈرتا ہوں۔ اپنے آپ پر مجھے اعتماد نہیں۔ دوسروں کی موجودگی میں مجھ سے کوئی بات نہیں ہوتی۔
اس سے معلوم ہوا کہ بچے کی توہین، تذلیل، تذحیک بچے کی شخصیت کو تباہ کر دیتی ہے۔ جن والدین کو اپنے بچوں سے پیار ہے انہیں چاہئے کہ اپنے بچوں کے احترام کو ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھیں۔
کیونکہ بچہ بھی انسان ہے اور ہر انسان کو اپنے آپ سے محبت ہوتی ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے اس کی قدر کریں۔ اس کے احساسات کا خیال رکھیں۔ اس کو وہ اپنی قدردانی سمجھتا ہے۔ بچے کے وجود کو اہمیت دینا اس کی تربیت میں سے ایک اہم رول ہے۔
جن بچوں کو احترام میسر ہو وہ نیک سیرت اور شریف بنتے ہیں۔ اور اپنے مقام کی حفاظت کے لئے برے کاموں سے بچتے ہیں۔ اور کوشش کرتے ہیں کہ اچھے کام کرکے دوسروں کی نظر میں اپنا اہم مقام بنائے۔ جن بچوں کے والدین ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں بچے بھی ان کی تقلید کرتے ہیں۔ بصورت دیگر جن بچوں کے والدین اپنے بچوں کی توہین وتحقیر کرتے ہیں بچوں کے دل میں ان کے خلاف کینہ پیدا ہوجاتا ہے۔ جس سے وہ جلد بدیر و سرکش اور نافرمان ہوجاتے ہیں۔ مگر بد قسمتی سے بہت سے ایسے والدین ہے جو بچے کے احترام کو تربیت کے منافی سمجھتے ہیں۔ اگر انہوں نے بچوں کا احترام کیا تو وہ بگڑ جائیں گے۔ اور ان کا احترام نہیں کریں گے۔ در اصل وہ بچے کی شخصیت کو کچل دیتے ہیں۔ اور ان کے دل میں احساس کمتری پیدا کردیتے ہیں جو کہ بہت بڑا نقصان ہے۔
یہ بات باعث افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں بچوں کا جس طرح احترام کیا جانا چاہیے نہیں کیا جاتا۔ انہیں خاندان کا باقاعدہ جز شمارنہیں کیا جاتا۔ انہیں باقاعدہ دعوت نہیں دی جاتی۔ انہیں کسی نچلی جگہ پر کمرے کے دروازے کے ساتھ جگہ دی جاتی ہے۔ انہیں باقاعدہ پلیٹ چمچا نہیں دیا جاتا۔ گاڑی میں ان کے لئے مخصوص جگہ نہیں ہوتی۔ یا تو کھڑے ہوجائے یا والدین کے گود میں بیٹھ جائے۔ محفل میں انہیں بات کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اور بات چیت میں ان سے مؤدبانہ سلوک نہیں کیا جاتا۔ ان کے لئے شکریہ اور اللہ حافظ نہیں ہوتا۔ گھریلو امور میں ان سے مشورہ نہیں لیا جاتا۔ دین اسلام نے بچوں کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ اور ان کا احترام کرنے کا حکم دیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنی اولاد کی عزت کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو تاکہ اللہ تمہیں بخش دے۔
اولاد کی تربیت ایک اہم فریضہ ہے۔ ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ بچے کو دبا کر رکھا جائے۔ ان پر سختی کی جائے کہ اگر بچے سے پیار کیا جائے تو وہ بگڑ جاتے ہیں۔ والدین بچے کو صاحب عزت بنانے کے لئے اس کی خوب دھلائی کرتے ہیں۔ بچے میں عزت نفس پیدا کرنے کے بجائے اس کی عزت نفس مارتے ہیں۔ بچہ جوں جوں بڑا ہوتا ہے اسے اس کی عادت پڑجاتی ہے کیونکہ اس کی عزت نفس مر جاتی ہے۔ کوئی کچھ بھی کہے اسے اس کا اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے برا محسوس ہوتا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ یہ عادت پختہ ہوجاتی ہے۔
والدین کو چاہیے کہ نہ صرف اپنے بچوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئے بلکہ ان کو خاص ہونے کا احساس دلائیں۔ اسے تم یا تو کہنے کے بجائے آپ کہہ کر بات کرنے کی عادت ڈالیں۔ اس کے دو فوائد ہے کہ بچہ ہر کسی سے عزت کی امید رکھے گا۔ اور دوسرا دوسروں سے بھی اسی طرح مخاطب ہوگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ عادت مزید نکھر جائے گی۔ مار بچے میں آپ کا ڈر پیدا کرسکتی ہے لیکن عزت نہیں….!
بچے کبھی ظالم نہیں ہوتے بلکہ معصوم ہوتے ہیں۔ کسی ظالم اور کافر کے گھر پیدا ہونے والا بچہ بھی سن شعور تک پہونچنے سے پہلے پاکیزہ فطرت کا حامل ہوتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اس کو یہودی، مجوسی، نصرانی بناتے ہیں اصلی فطرت تو وہی ہے جس پر اللہ پیدا فرماتا ہے۔
( بخاری شریف، باب الجنائز)