ملک صاحب ابھی چند دن پہلے لندن سے اپنے جگر کی پیوند کاری کروانے کے بعد پاکستان واپس آئے ہیں. خدا نے ان کو نئی زندگی عطا کی ہے.
ہمارے بچپن کی بات ہے کہ جب ہم بہت چھوٹے ہوتے تھے. غالبا 24 سال پرانی یادیں ہیں. ہمارے پڑوسی ملک صاحب کی کوئی اولاد نہ تھی، مگر ان کے گھر میری عمر کا ایک ننھا سا بچہ آتا، دروازے پر دستک دیتا. ملک صاحب دروازہ کھول کر اسے اپنی بیٹھک میں بٹھاتے اور اس کے سامنے ناشتہ رکھتے. لگ بھگ میرا ہم عمر وہ بچہ ناشتہ کرتا اور چلا جاتا. اسی طرح وہ رات کو بھی آتا اور کھانا کھا کر چلا جاتا. بہت سالوں بعد جب ہم نے مسجد میں نماز کے لیے جانا شروع کیا تو اسے مسجد میں رہتے ہوئے دیکھا. وہ گاؤں سے آیا ہوا ایک یتیم بچہ تھا. ملک صاحب اس بچے کے سکول کے اور دیگر اخراجات اپنے ذمے لے چکے تھے اور اسے دو وقت کا کھانا بھی دیتے تھے. بچہ سکول سے کالج گیا تو اس نے مسجد چھوڑ دی اور ملک صاحب کے گھر سے کھانا بھی. وہ شاید اپنے گاوں واپس چلا گیا تھا یا کہیں اور. اس کا کسی کو علم نہ تھا.
ابھی پچھلے دنوں ملک صاحب کی طبیعت خراب ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کی حالت خطرے میں ہے. انہیں جگر کا کینسر ہو گیا تھا. پھر اچانک ملک صاحب لندن چلے گئے اور وہاں سے جگر ٹرانسپلانٹ کروا آئے ہیں. محلے والے حیران تھے کہ مہنگے علاج پر اٹھنے والے اخراجات کس نے ادا کئے ہوں گے. اور اپنے جگر کا ٹکڑا بھلا کس پاگل نے عطیہ کیا ہوگا. صحت یاب ہونے پر ملک صاحب نے ہمارے والد صاحب کو بتایا کہ وہ بچہ جو محلے کی مسجد میں رہتا تھا، اب ایک بہت بڑی نجی کمپنی میں انجنیئر ہے.اسی نے ملک صاحب کو اپنا جگر عطیہ کیا ہے اور علاج کے اخراجات بھی اٹھائے ہیں….
نیکی پلٹ کر آتی ہے . آزما کر دیکهئیں.
جزاک اللہ