“بی بی جی! میں آ جاؤں؟ ” پروین نے ٹوکری سے کوڑا اپنی کچرا گاڑی میں منتقل کرتے ہوئے بی بی جان سے پوچھا،
“ہاں ہاں، کیوں نہیں! تم سامنے نل سے ہاتھ دھو کر آؤ، تب تک میں ناشتہ منگواتی ہوں” بی بی جان نے شفقت بھرے انداز میں پروین کو جواب دیا اور ساتھ ہی اپنی بہوؤں کو آواز دینے لگیں ۔
“اری ثروت! انیلہ! بیٹی جلدی سے پروین کے لیے ناشتہ لے آؤ” ۔
” ایک تو میں اس پروین سے بہت تنگ ہوں، پتہ نہیں کیوں بی بی جان کو اس کے عیسائی ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔ پھر وہ کوڑا اٹھانے والی گندی عورت! ہونہہ ثروت بیگم دانت کچکچاتے ہوئے ناشتہ بنانے لگیں” ۔
ہاں بھابی! مجھے بھی اس گھر میں دو سال تو ہونے کو آئے ہیں، میں بھی یہی دیکھ رہی ہوں کہ پورے “پروٹوکول” کے ساتھ “کوڑا اٹھانے والی” پروین صاحبہ کو ہر صبح ٹرے میں ناشتہ پیش کیا جاتا ہے۔ کچھ کہو تو یہ کہہ کر خاموش کروا دیا جاتا ہے کہ اسلام تلوار سے نہیں اخلاق سے پھیلا ہے انیلہ بیگم بھی برا مناتے ہوئے گویا ہوئیں ۔
“تم دو سال کی بات کر رہی ہو؟ میری شادی کو ساڑھے تین سال ہو چکے ہیں۔ اس سے بھی پہلے پتہ نہیں کب سے یہ سلسلہ پوری آب و تاب سے چل رہا ہے” ثروت بیگم نےکہا اور بے دلی سے ٹرے سجائی اور مصنوعی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے لان میں بیٹھی پروین کے سامنے رکھی اور پلٹ گئیں ۔
“لو کھاؤ کھاؤ! اور ہاں دیکھو پیٹ بھر کر کھانا، روٹی اور چاہیے تو لے لینا”۔ ہمارے پیارے نبی صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے کہ “بھوک اور تکلف کو ایک جگہ اکٹھا مت کرو “۔ بی بی جان نے اس کے سامنے جگ سے پانی نکال کر رکھتے ہوئے کہا مگر دوسرے ہی لمحے حیران رہ گئیں ۔ پروین نے کھانا کھانے کی بجائے منہ پر ہاتھ رکھ کر رونا شروع کر دیا تیزی سے نکلنے والے آنسو لمحوں میں اس کا چہرہ بھگو چکے تھے ۔
” اری،کیا ہوا؟ پروین! ایسے کیوں رو رہی ہو؟ گھر میں سب ٹھیک تو ہیں نا؟ کوئی مسئلہ تو نہیں؟” بی بی جان نے گھبرا کر ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے اور پروین کی طرف پانی بڑھاتے ہوئے کہا” سب چھوڑو، لو، پہلے پانی پیئو ” پروین نے پانی پیا اور کچھ دیر سر جھکا کر بیٹھی رہی۔ اس کی آنسوؤں بھری کچھ سوچتی آنکھیں پل بھر کو بی بی جان پر ٹکیں۔
” بی بی جان! مجھے اپنے نبی کا کلمہ پڑھا دیں میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں”۔
” کیا؟۔ ۔ ۔ ک۔ ۔ ک۔ ۔ کیا کہا تم نے ؟” بی بی جان نے بمشکل فقرہ پورا کیا –
” جی بی بی جان! میں باہوش و حواس مسلمان ہونا چاہتی ہوں-” پروین بولی
“تم نے یہ مذہب بدلنے کا اتنا بڑا فیصلہ کس طرح اتنی آسانی سے کر لیا؟” بی بی جان ابھی تک یقین نہیں کر پا رہی تھیں۔
” آسانی کہاں بی بی جان! چار سال ہو گئے ہیں قطرہ قطرہ چوٹ پڑتے۔ ۔ آپ کو یاد ہے کہ نہیں، مگر مجھے آج بھی وہ دن یاد ھے، جب چار سال پہلے ایک دن بھوک سے تنگ آ کر آپ سے کھانا مانگا تھا تو میرا خیال تھا کہ آپ مجھے کوئی بچی کھچی روٹی شاپر میں ڈال کر دے دیں گی۔ مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب آپ نے صابن سے میرے ہاتھ منہ دھلوا کر ٹرے میں رکھ کر ناشتہ پیش کیا ۔ اور میرے جھجھکنے پر کہا بیٹی! کھا لو۔ ہمارے قرآن میں جگہ جگہ بھوکے کو کھانا کھلانے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ حکم صرف کسی مسلمان کے لیے نہیں بلکہ ہر اس شخص کے لئے ہے جو بھوکا ہو ۔ پھر یہ ٹرے میں سجے قیمتی برتن! آپ مجھے عام برتنوں میں دے دیتی میں اسی میں کھا لیتی۔ میرے جھجھکنے پر آپ کا جواب تھا “بیٹی! *یہ کھانا میں تمہیں اللہ کے نام پر کھلا رہی ہوں تو اللہ کے نام پر کھلایا جانے والا کھانا میں کس طرح عام برتنوں میں کھلاؤں؟* میرا دل گوارا نہیں کرے گا ” اور پھر اس دن کے بعد سے آج تک میں اس گھر سے پہلے دن کی طرح عزت سے پیٹ بھر کر جاتی ہوں ۔
“مگر یہ تو چار سال سے تمہارا معمول ہے، اب ایسی کیا بات ہوئی کا تم اپنا پیدائشی مذہب چھوڑنے کو تیار ہو گئی ہو؟ ” بی بی جان خوشی اور حیرت کی ملی جلی کیفیت میں بولیں ۔
“بی بی جان! آپ میری بات کا یقین کریں یا نہ کریں، میں نے آج رات خواب دیکھا کہ قیامت کا سماں ہے، ہر طرف پریشانی اور خوف کا ڈیرہ ہے، سورج کی تپش ہر چیز پگھلا چکی ہے، ہر طرف شور و غل مچا ہے۔ مجھ ان پڑھ کے پاس وہ الفاظ ہی نہیں جو اس کیفیت کو بتلا سکوں کہ میں چھاؤں کی تلاش میں بھاگتی ہوں، قدموں کے نیچے تپتی زمین پاؤں میں چھالے بنا چکی ہے مگر کہیں پیر رکھنے جتنی بھی ٹھنڈی جگہ نہیں۔ اچانک میں نے کچھ لوگوں کو ایک ٹھنڈی چھاؤں میں دیکھا۔ کیا چھاؤں تھی وہ بی بی جان!! جس میں موجود نہ ہونے کے باوجود اس کی ٹھنڈک کے تصور نے مجھے میرے پاؤں کے چھالے بھی بھلا دئیے اور جب جب۔۔۔ جب میں نے اس چھاؤں تک پہنچنے کی کوشش کی تو مجھے یہ کہہ کر وہاں سے پیچھے ہٹا دیا گیا کہ *یہ اللہ کے عرش کا سایہ ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو اس کے لیے لوگوں سے محبت کرتے ہیں اور اسی کے لیے نفرت* ۔ اور بی بی جان پھر میری آنکھ کھل گئی اور میرے دل نے آپ کے مذہب کے سچا ہونے کی گواہی دی اور میں آپ کے سامنے ہوں۔ مگر آپ کو ایک بات بتاؤں بی بی جان؟ اس چھاؤں میں خوشی سے چمکتا دمکتا چہرہ لئے آپ بھی موجود تھیں۔ میں نے آپ کو خود دیکھا تھا “پروین آنسوؤں کی لڑی میں ہنستے ہوئے خوش ہوکر بولی”۔
حیرت اور مسرت سے بی بی جان کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور وہ پروین کو کلمہ پڑھانے کے لیے غسل کرنے کا کہہ کر خود سجدہ شکر ادا کرنے چل پڑیں۔ انہیں کیا خبر تھی کہ چار سال تک *اسم اعظم یعنی اللہ کے نام کا کھانا کھلانے سے جہاں اسے(پروین کو) ہدایت کا نور عطا کیا جائے گا، وہیں خود انہیں(بی بی جان کو) بھی روز ٍ قیامت سایہ عرش کی خوشخبری اسی کے ذریعے پہنچا دی جائے گی*
۔copied